Translate and read into your own language

کنکر

Gravel

کنکر

میرے خالق نے مجھے ایک کنکر بناکر خلامیں چھوڑ کر میرے لیے ایک سمت مقرر کردی اورکہا کہ جب تک تم صحیح راستے پر چلوگے۔ اپنا سمت تبدیل نہیں کروگے۔ اپنی مدار میں گھوموگے اُس وقت تک تمھاری حفاظت ہر حوالے سے کی جائے گی۔
جس وقت میں مدار میں گھوم رہا تھا۔ تب میں اپنے آپ کو بہت ہلکا محسوس کررہا تھا۔ میں آسانی سے اپنے آپ کو گھما پھرا سکتا تھا۔ میں بھلا خوف وخطر اپنے سمت کی طرف جارہا تھا۔ میرے ارد گرد بہت سی چیزیں تھیں۔ وہ بھی اپنے مدار کے مطابق اپنی سمت کی طرف رواں دواں تھے۔ کوئی بھی اپنے مدار کی خلاف ورزی نہیں کرتا اورنہ کبھی کسی نے میرے مدار میں آنے کی کوشش کی۔ دن کے وقت سورج کی روشی کی وجہ سے دور دور تک کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ مگر رات کے وقت نظارہ بہت خوبصورت تھا۔ ایک طرف سے ستارے چمک رہے تھے۔ تو دوسری طرف سے دُم دار ستارے ناچ رہے تھے۔ ستاروں کی روشی کی وجہ سے رات بہت خوبصورت دکھائی دے رہا تھا۔ یہ راتیں کتنی حسین تھیں۔یہ راتیں کتنی خوبصورت تھیں۔ ہر ایک قدرت کے قانوں کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے اپنے کام میں مصروف تھا۔ ظاہر سی بات ہے۔ مجھے بھی قدرت کے قوانین کی پابندی کرنا ہی تھا۔ اس لیے میں چپ چھاپ خوبصورت مناظر کو دیکھتے ہوئے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا۔ اس حالت میں کئی برس گزر گئے۔ کسی نے بھی میرے مدار کی خلاف ورزی نہیں کی۔ میں دوسرے پتھروں کی بہ نسبت چھوٹا ساتھا۔ اور ہلکا بھی تھا۔
ایک دن میں نے سوچا کیوں نہ اپنے ہمسائے کے مدار میں جاکر اُس کے ساتھ گپ شپ لگائے۔ اور اُس سے دوستی نبھائے۔ تاکہ دیکھ لوں کہ نزدیک سے دوسری چیزیں کیسے دکھائی دیتے ہیں۔ توپہلی بار میں اپنے مدار سے باہر نکل کر ہمسائے کے مدار میں اُس کے اجازت کے بغیر چلا گیا۔ میں تو اسی سوچ میں تھا۔ کہ وہ آئے گا۔ اور میں اُس کے ساتھ دوستی نبھاؤں گا۔ اچانک ایک بڑے پتھر نے مجھ پر حملہ کرکے ایک ایسا ٹھوکر مارا کہ میں نے اپنے کنٹرول کھو بیٹھا۔ اور بغیر سمت کے دوسری طرف جانے لگا۔ جب میں ایک دوسرے پتھر کے مدار میں آیا تو اُس نے بھی مجھے ایک ٹھوکر مار کراپنے مدار سے باہر نکال دیا۔ جب بھی میں کسی پتھر کے مدار میں جاتا تو وہ مجھے ٹھوکر مار کر اپنے مدار سے نکال دیتا۔ کسی نے بھی مجھ سے دوستی نہیں کی اور نہ کسی نے میزبانی کا حق ادا کردیا۔ اب میں اپنے مدار سے بہت دور نکل چکا تھا۔ اور نہ میں اپنی مدار تک پہنچ سکتا تھا۔ اب مجھے اپنے غلطی کا احساس ہوگیا۔ مگر اب میں کچھ بھی نہیں کرسکتا تھا۔ کسی نے بھی میری خاطر تواضع نہیں کی۔ نہ میں کسی کو جانتا تھا اور نہ کوئی مجھے جاننے کی کوشش کرتا۔
اب میں محسوس کرنے لگا۔ کہ میں اپنے اوقات بھول کر دوسروں کی کاموں مں میں مداخلت کی اور اُن کے راستوں میں رکاوٹ بنی۔ اس لیے ہر ایک نے مجھے بے عزت کرکے اپنے مدار سے نکال دیا۔ اب مجھے کئیں بھی جگہ نہیں مل رہا تھا۔ ٹھوکر کھاکھا کر آخر کار زمین کی مدار میں آگیا۔ تو زمین مجھے اپنی طرف کھینچنے لگا۔ میں نے لاکھ کوشش کی کہ زمین کی کشش ثقل سے بچ نکلوں۔ مگر میں بچ نہ سکا۔ اب میں زمین کی طر ف آرہا تھا۔ میں اپنے آپ کو سنبھلنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مگر ہوا جب تیز چلتا تو مجھے اتنی تیزی سے دھکیلتا۔ کہ میں اپنے آپ کو کنٹرول نہیں کر سکتا تھا۔ میں کبھی ایک طرف تو کبھی دوسری طرف ہوا میں اُڑ رہا تھا۔ جب میں زمین کے بہت نزدیک آپہنچا۔ تو دیکھا کہ ایک طرف پانی ہی پانی تو دوسری طرف پہاڑ ہی پہاڑ تھے۔ ایک طرف جنگل ہی جنگل تو دوسری طرف بیاباں ہی بیاباں تھے۔ ایک طرف خوشی ہی خوشی تو دوسری طرف غم ہی غم تھے۔ ایک طرف پھول ہی پھول دوسری طرف کانٹے ہی کانٹے تھے۔ ایک طرف خاموشی ہی خاموشی تو دوسری طرف شور ہی شور تھا۔ میں سوچ رہا تھا۔ کہ کیا کروں۔ کس طرف جاؤں۔ اگر پہاڑوں سے ٹکراؤں گا۔ تو میرا جسم چُور چُور ہوجائے گا۔ اگر شہر میں گروں گا تو کسی عمارت کے دیوار میں دفن ہو جاؤں گا۔ اگر بیاباں میں گروں گا۔ تو وہاں تا ابد تنہا رہوں گا۔ اگر جنگل میں گروں گا۔ تواُس سے میرا نکلنا مشکل ہوجائے گا۔ میں جب سمندر کی طرف دیکھا تو وہ بہت خاموش تھا۔ ہرطرف پانی ہی پانی تھا۔ مگر اُس طرف ایک پُرسکون منظر خلا کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔ پرندے سمندر کے اُوپر اُڑ رہے تھے۔ مچھلیاں سمندر میں تیر رہے تھے۔ سمندر کی لہر یں ہوا کے رُخ کے ساتھ خاموشی سے جا رہے تھے۔ اور سمندر بالکل خاموش تھا۔ ایک خوبصورت ساسما ں نظر آرہا تھا۔ تب میں نے سوچا کہ اب زمین کے کش ثقل سے تو بچ نہیں سکتا۔ پہاڑوں سے ٹکراکر چُور چُور ہونے سے بہتر ہے۔ کہ سمندر میں گر جاؤں۔ تب میں نے اپنا سمت سمندر کی موڑ لیا۔ زمین مجھے اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔ ہوا مجھے تیزی سے دھکیل رہا تھا۔ مگرمیں اپنا سارا طاقت استعمال میں لاتے ہوئے سمندر کی طرف بڑھ رہا تھا۔ آخر کار سمندر کے اُوپرآگرا۔سمندر کے اوپر گرتے ہی اُس کا نیند خراب کردیا۔ سمندر نے شور مچانا شروع کیا۔ سمندر کی لہریں ہر طرف جانے لگے۔ میں سمندر کے اوپر آنے کی کوشش کررہا تھا۔ مگر زمین کی کشش ثقل مجھے نیچے کی طرف کھینچ رہا تھا۔ میری وجہ سے سمندر پریشان ہو رہاتھا۔
تب سمندر نے مجھ سے مخاطب ہو کر پوچھا کہ تم کون ہو؟ یہاں کیوں آئے ہو؟ تم نے میرا نیند خراب کردیا؟
میں نے جواب دیا میرا قصّہ بہت لمبا چھوڑاہے۔ خالق نے مجھے ایک آزاد کنکر بناکر خلا میں چھوڑ دیا۔ اور خلا میں میرے لیے جگہ مقرر کردیا گیا۔ مگرمیں نے یہ سوچ کر اپنا جگہ تبدیل کرلیا۔ کہ جاکر دیکھ لوں کہ میرے علاوہ کیا کچھ اس دُنیا میں وجود رکھتا ہے۔ میں اپنا جگہ تبدیل کرکے دوسروں کے مدار میں آنے کی کوشش کی۔ جس کی وجہ سے ہرایک نے مجھے ٹھوکر مار کر اپنی مدار سے نکال دیا۔ بہت سے ٹھوکریں کھاکر میں زمین کے مدار میں آپہنچا۔ تب زمین کی کشش ثقل نے مجھے اپنے طرف کھینچنا شروع کیا۔ میں نے زمین کی کشش ثقل سے بچنے کی بہت کوشش کی مگر بچ نہ سکا۔ تب میں نے سوچا کہ پہاڑوں سے ٹکرا کر چُور چُور ہونے سے بہتر ہے۔ کیوں نہ آپ کا مہمان بنوں!
سمندرنے مجھ سے کہا کہ تم تیرنا جانتے ہو؟
میں جواب دیا نہیں۔ تب اُس نے کہاکہ اگر تم تیرنا نہیں جانتے توتم میرے اوپر اپنے کو کنٹرول نہیں کرسکتے ہو۔ اس لیے اب نیچے جاؤ اور میرے گہرائیوں میں جھانک کر دیکھ لوتب میں نیچے اترنے لگا اور سمندر کی گہرائیوں میں جھانکنے لگا۔ سمندر کے اندر ایک نئی اور پرسکون زندگی تھی۔ یہ اوپر کے دُنیا کے بہ نسبت بالکل مختلف تھی۔ ہر طرف سے رنگ برنگے مچھلیاں تیررہے تھے۔ اور اتنی خوبصورت لگ رہے تھے کہ میں نے باہر کی دُنیا میں نہیں دیکھا۔ یہ ایک نئی منظر تھا
میں سمندر کی حسین مناظر کو دیکھتے ہوئے۔ نیچے اُتر رہاتھا۔ جب میں سمندر کی گہرائیوں میں پہنچا تو ہمیشہ کیلئے ایسا خاموش ہوگیا۔ جس طرح سمندر خاموش تھا۔۔۔۔۔



(مصنف: شیکوف بلوچ)

Gravel

My Creator made me a skeleton/small stone/Gravel and set aside directions for me and said that as long as you follow the right path. Will not change your direction. You will be protected in every respect until then.
Written by Shaikof

Small Stone

No comments:

Post a Comment

apna qimat janay

اپنی قیمت جانیں یہ کہانی اس بارے میں ہے کہ آپ کو اپنی قدرو قیمت جاننا کتنا ضروری ہے۔ آپ کا وقار سونے اور زیور سے زیادہ قی...