Translate and read into your own language

تیار خوری کا انجام

تیار خوری کا انجام

پہاڑوں یا جنگلوں میں رہنے والے لوگوں کا پڑھائی سے کوئی سروکار نہیں۔ یا شاید اُن کو پتہ نہیں کہ پڑھائی کے کیا فائدے ہیں۔ مگر وہ لوگ ایک چیز ضرور جانتے ہیں۔ کہ اپنے بچوں کو تعلیم وتربیت دیں۔ یقینا وہاں کوئی
سکول نہیں ہوتا۔ ہر شخص کوئی نہ کوئی کام کرنا ہوگا۔ کوئی کھیتی باڑی کرتاہے۔ تو کوئی گلہ بانی۔ کچھ لوہار کاکام کرتے ہیں۔ غرض یہ کہ ہر ایک کوئی ایک کام کرتا ہے۔ اپنے بچوں کو تربیت دینے کے لیے وہ ہر وقت اپنے بچوں کو ساتھ میں لے جاتے ہیں۔ اگر کوئی کھیتی باڑی کرتاہے۔ تو بچے اُن کی مدد کرتے ہیں۔ اگر کوئی گلہ بانی کرتاہے۔ تواُن کے بچے بھیڑ بکریوں کے بچوں کے ساتھ مشغول ہوتے ہیں۔ لوہار کے بچے ہروقت اُن کی کام میں مدد کرتے ہیں۔ جب اُن کے ہاں کوئی پروگرام ہوتاہے۔ توا ُن کے بچے بھی اُس میں شریک ہوتے ہیں۔ اخلاق و کردار کے لحاظ سے اُن کے بچے اچھے کردار کے مالک ہوتے ہیں۔ جسمانی لحاظ سے بھی مضبوط ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اُن کا مستقبل اچھا گذرجاتاہے۔ وہ کسی بھی جگہ جاکر کوئی نہ کوئی کام کرسکتے ہیں۔
شہروں میں پرائمری سکولوں سے لے کر بڑے بڑے یونیورسٹیاں قائم ہیں۔ جہاں بچوں کی تعلیم وتربیت ہوتی ہے۔ والدین اپنی بچوں کی کوئی تربیت نہیں کرتے۔ بچوں کو کوئی کام نہیں سکھایا جاتا۔ بچوں کو کھانا تیارمیں ملتا ہے اُن کے کپڑے دھوئے جاتے ہیں۔ استری ہوجاتے ہیں۔ جوتوں کو پالش کیا جاتاہے۔ نہ بچوں کو اخلاق سکھایا جاتاہے۔ اورنہ ادب والدین شاید یہ بھول جاتے ہے۔ کہ بچوں کا پہلا تربیت گاہ وہ گھر ہی ہوتاہے۔ مگر والدین یہی سمجھتے ہیں کہ اُن کے بچوں کا تربیت سکول میں ہوتا ہے۔ سکولوں میں اچھے اُستادہوں گے جو اُن کی بچوں کی تربیت کا ضامن ہیں۔ شاید والدین نے اُن اُستادوں کے چہرے بھی نہ دیکھے ہوں کہ وہ واقعی اُن کے بچوں کے اُستاد بننے کے لاحق ہے کہ نہیں وہ اخلاق واد ب سے واقف ہے کہ نہیں؟۔ والدین کی لاپروائی کی وجہ سے بچوں کا مستقبل تباہ ہوجاتاہے۔ مگر والدین کو کون سمجھائے کہ اپنے بچوں کا تربیت کریں۔
ایک طالب علم میٹرک پاس کرکے دوسرے شہر کالج میں داخلہ لیاجب وہ اپنے گھر میں تھا۔ ہر چیز تیار ملتا تھا۔ کھانا ٹائم پر پکایا جاتاتھا۔ کپڑے استری ہوتے تھے۔ بوٹ پہلے سے پالش ہوکر تیار تھے۔ مگر جب کالج میں داخلہ لیا تو تیارکھانا بند ہوگیا۔ کپڑوں کی دھلائی بند ہوگئی۔ بوٹوں کی پالیش ختم ہو گئی۔ مجبوری سے اُسے کالج کینٹین میں کھاناکھانا پڑتا تھا۔ کپڑوں کی دھلائی کے لیے دھوبی کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ بوٹوں کو پالش کرنے کے لیے پالش کرنے والے ڈھونڈنا پڑتا تھا۔ آخر کار وہ طالب علم نفسیاتی مریض بن گیا۔ تین مہینے کے بعد وہ بہت کمزور ہوگیاتھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ بیمار ہے
ایک دن اُس سے اچانک میری ملاقات ہوئی۔ جب میں اُسے دیکھا تو پریشان ہوا کہ اس نوجوان کو کیا ہواہے۔ میں نے اُس کی صحت کے بارے میں پوچھا۔ تواس نے انکشاف کیا کہ کینٹین کا کھانا کھا نہیں سکتا۔ مگر مجبوری سے کھانا پڑتا ہے اور کپڑوں کی دھلائی کا بھی مسئلہ ہے تو میں نے اُس سے کہا بھائی جان یہ آپ کا قصور نہیں بلکہ یہ آپ کے والدین کا قصورہے کہ اُنھوں نے آپ کو لاڈلا بنایا تھا۔ آپ کو گھر میں صحیح تربیت نہیں دی تھی۔ اور نہ کسی مصیبت سے نمٹنے کے لیے تیار کیا تھا۔ وہ تو یہی سمجھتے تھے کہ ہر وقت آپ کو تیار اور اچھے کھانا ملیں گے۔ انھوں نے تو بڑی غلطی کی ہے کہ آپ کو کوئی کام نہیں سکھایا حتیٰ کہ اپنے پیٹ کا بندوبست کرنے کے لیے آپ کو کچھ نہیں سکھایا۔ اب اگر آپ چاہتے ہیں۔ تو میں آپ کو ایک مشورہ دے سکتا ہوں آپ اس مصیبت سے چھٹکارا پائیں گے۔ اور آپ کی صحت اچھی ہوگی۔اُس نے کہا کہ میں آپ کا مشورہ سننے کے لیے تیار ہوں تو میں نے کہا اب گھر جاؤ۔اپنی امی جان سے کہ دو۔ امی جان مجھ پر ایک احسان کیجئے مجھے کھانا پکانا سکھائیے۔ تاکہ میں اپنی محنت سے کھانا پکاؤں۔ اور جی بھر کر مزے سے کھاؤں۔ کپڑوں کی دھلائی سکھائیں۔ تاکہ میں اپنے کپڑوں کو صاف ستھرا رکھ کر پہنا کروں۔ دھوبی کے سہارے سے چھوٹ جاؤں۔ اس طرح اور بہت سے چھوٹے چھوٹے کام ہیں جنہیں خود کرنے پڑھتے ہیں۔ کیونکہ زندگی پر کیا بھروسہ کل آپ کہاں ہوں گے۔
زندگی میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں۔ جو اپنے کام خود کرتے ہیں۔ دوسروں کا سہارے نہیں ڈھونڈے۔
ڈاکٹر نپولین ہل کہتا ہے۔
بچوں کو آرام اور آسائش دینے کی خواہش اسے مستقبل میں کسی مصیبت میں ڈھال سکتا ہے۔
بچہ گھر جا کر ماں سے کہتی ہے ماں میری آنکھوں میں جھانک کر دیکھ لیں۔ ماں جب بیٹے کی آنکھوں میں آنکھیں ملا کر دیکھتا ہے۔ بچے کی آنکھیں زرد زرد ہیں۔ رنگ پیلا پڑگیا ہے۔ جسم کمزور۔ قوت مدافعت ختم ہوگئی ہے۔ بچہ کمزوری کی وجہ سے خوف کا شکار ہے۔ نفسیاتی مریض بن گیا ہے۔ ماں بیٹے سے پوچھتا ہے۔
بیٹا آپ کو کسی کی نظر لگ گئی ہے کہ آپ کی یہ حالت ہے۔
بیٹا نے جواب دیا
ماں یہ آرام و آسائش کی نظریں ہیں۔ یہ لاڈ وپیار کی مہربانیاں ہیں۔ یہ کاہلی اور سستی کی احسانات ہیں۔ ماں اب میرے اُوپر ایک احسان کر مجھے کام کرنا سکھا دے۔ تاکہ میرا جسم مضبوط ہوجائے میں حالات کا مقابلہ کر سکوں کیونکہ
ہر دکھ کے بعد سُکھ ضرور ملتا ہے۔
مجھے کھانا بنانا سکھادے تاکہ میں کینٹین اور ہوٹل کی خوراک سے بچوں جو میرے لیے نہیں ہیں۔ مچھے کپڑا دھونا سکھاتاکہ میں اپنے کو پاک وصاف رکھ سکوں۔ اپنے جوتوں کو صاف کرسکوں جب میری صحت اچھی ہوگی۔ تو لازمی بات ہے۔ میں ذہنی حوالے سے بھی اچھے کردار کا مالک بنوں گا۔ جب میں ذہنی حوالے سے مضبوط ہو جاؤں گا تب میں حالات کا مقابلہ کر سکوں گا۔ اس لیئے تو کہتے ہیں۔
جان ہے تو جہاں ہے.



(مصنف: شیکوف بلوچ)

Ready to eat

Ready to eat, Desire to comfort the children. That could put him in trouble in the future.
Written by Shaikof

Ready to eat

No comments:

Post a Comment

apna qimat janay

اپنی قیمت جانیں یہ کہانی اس بارے میں ہے کہ آپ کو اپنی قدرو قیمت جاننا کتنا ضروری ہے۔ آپ کا وقار سونے اور زیور سے زیادہ قی...