Translate and read into your own language

خیر خواہ بادشاہ

خیر خواہ بادشاہ

ایک بادشاہ کو اپنی رعایا سے بہت ہمدردی تھا۔ وہ اپنی رعایا کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنا چاہتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ رعایا کو زیادہ سے زیادہ سہولیات میسر ہوں۔ اور وہ خوشی سے جئیں جب بھی بادشاہ کا وزیر اُسکے پاس آتا تو وہ وزیر سے پوچھتا رعایا کا کیا حال ہے وزیر جواب دیتا بہت خوب رعایا کو ہر چیز میسر ہے۔ پانی،بجلی،گیس، خوراک،بنگلہ،گاڑی کسی چیز کی کمی نہیں۔ ہر ایک آپ کیلئے دُعائیں کرتا رہتا ہے۔ بادشاہ کو خدا ہر وقت سلامت رکھے۔ بادشاہ کاایک جمعدار بھی تھا۔ جو صفائی وغیرہ کاکام کرتا تھا۔جب جمعدار سے پوچھتا کہ رعایا کا کیا حال ہے۔ توجمعدار جواب دیتا بہت خراب گیس نہیں، بجلی نہیں۔ خوراک کامسئلہ ہے پانی کامسئلہ ہے۔ روڈ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ مزدوری نہیں ملتا لوگ رات کی روٹی کیلئے پریشان ہیں جمعدار کی باتیں سن کر بادشاہ پریشان ہوجاتا اور وزیر کی آمد کا انتظار کرتا۔ دوسرے دن جب وزیر آتا تو اُس سے واپس پوچھتا رعایا کا کیاحال ہے وزیر پھر سے کہتا بالکل ٹھیک رعایا بالکل خوش ہے۔ بادشاہ خوش ہوکر جمعدار کی آمد کا انتظارکرتا۔ جمعدار جب آتا تو بادشاہ اُس سے پوچھتا رعایا کا کیا حال ہے۔ تو جمعدار پھر سے وہی جواب دیتا۔ بہت خراب رعایا بالکل ناخوش ہے۔ آخر کار بادشاہ سلامت سوچنے لگا۔ کیاوجہ ہے کہ جب بھی وزیر سے رعایا کا حال پوچھتا ہوں تو وہ کہتا ہے کہ بالکل ٹھیک جب جمعدار سے پوچھتا ہوں تو جواب ملتا ہے۔ کہ بالکل خراب۔
بادشاہ نے سوچا کہ کیوں نہ وزیر کو معطل کرکے اُس کی جگہ پر جمعدار کو تعینات کاجائے۔ آخر کار بادشاہ نے ایسا ہی کردیا۔ جمعدار جب وزیر بن گیا۔ تو اُس کے چار چاند لگ گئے۔ اُسکو نیا بنگلہ مل گیا۔ نئی گاڑی، نئی آشائشیں میسر ہوگئے۔ نئے محلہ پر منتقل ہو گیا۔ وزیر بننے کے بعد اُس کی ملاقات بادشاہ سے ہوئی تو بادشاہ نے پوچھا رعایا کا کیا حال ہے۔ جمعدار وزیر نے کہا۔ بادشاہ سلامت بہت خوب رعایا اچھے اچھے مکانات میں رہتے ہیں۔بجلی پانی، روڈ، کام، غرض یہ کہ ہر چیز رعایا کو میسر ہے۔ بادشاہ کی سمجھ میں نہیں آیا تو اُس نے وزیر سے کہا جب تم جمعدار تھے ہرروز کہا کرتے تھے۔ کہ رعایا بالکل خراب ہے۔ آج جب وزیر بن گئے۔ تو کہتے ہو کہ رعایا بالکل ٹھیک ہے۔
جمعدار وزیر نے کہا جناب جس وقت میں جمعدار تھا۔ میں اُس علاقے میں رہتا تھا۔ جہاں پر لوگوں کے بہت سے مسئلے مسائل تھے۔ واقعی لوگ خراب زندگی گذار رہے تھے۔ آج جبکہ میں وزیر ہوں۔ اور جس علاقے میں رہتا ہوں۔ اُس علاقے میں عوام خوش خوشحال ہے۔ لوگوں کے پاس اچھے اچھے بنگلے اچھے اچھے گاڑیاں اور بہت سے سہولیات میسر ہیں۔ اور مجھے بھی اب ہر چیز میسر ہے۔ جب لوگ اقتدار میں ہوتے ہیں۔ تو اُن کے پاس ہر چیز کی سہولت ہوتی ہے۔ مثلاََ ایک وزیرکے پاس بیس گاڑیاں ہوتے ہیں۔ بنگلہ ہوتا ہے۔ اُسے کروڑوں روپے اخراجات ملتاہے۔ وہ ہر وقت خود دارالحکومت کے بنگلے میں بیٹھا ہوتاہے۔ جہاں اُس کے تعلقات اُن لوگوں سے ہوتاہے۔ جھنیں ہرقسم کی سہولیات میسر ہیں۔ ظاہر سی بات ہے۔ وہ جب اقتدار کی نشے میں ہو اُسے غریبوں کا کیا خیال آتا ہے۔ وہ یہی سمجھتا ہے کہ سارے عوام خوش ہیں۔ جب وہ دارالحکومت میں بیٹھ کر شراب کی نشے میں ہو اُسے کیا خیال آتا ہے۔کہ غریب کی زندگی کیسی گذرتی ہے۔ وہ یاروں کے رو بہ رو ایسے الفاظ دوراتا ہے ”بس جانے دو یار ایک پیک اور وہ جائے۔ غریبوں کا خدا مالک ہے جس نے پیدا کی وہی رزق بھی دیتا ہے“
خدا داد مملکت کی بادشاہ بھی کسی سے کم نہیں۔ لندن میں بیٹھ کر بھی اُسے عوام کا خیال رہتاہے۔ دوسرے لوگ لندن جانے کے بعد اپنے عوام اور ملک کو بھول جاتے ہیں۔ مگر صدر مملکت نے لندن سے اپنے جمعدار کو فون کرکے پوچھا عوام کا حال سنائیں۔ کیا حال ہے عوام کا۔ مجھے لندن میں بھی عوام کی یاد ستاتا ہے۔ جمعدار نے کہا”سر“ عوام کاحال بہت بُرا ہے۔ بارش ہو رہی ہے سیلاب آیا ہے ایک کروڑچالیس لاکھ لوگ بے گھر ہوئے ہیں مکانیں تباہ، کاروبار بند، روڈ تھوڑ پھوڑ کا شکار ہوگئے۔ ہر طرف پانی ہی پانی ہے۔ لوگ پانی کے اندر تیر رہے ہیں۔ بچانے والا کوئی نہیں۔ ہسپتال بھی پانی میں ڈوب گئے۔ بیماری نے لوگوں پر حملے شروع کئے ہیں۔ اور بہت سے لوگ بیماری کا شکار ہوئے ہیں۔ پرسان حال کوئی نہیں۔ بچے بھوک اور پیاس کی وجہ سے رو رہے ہیں۔ رات کو مچھروں کی وجہ سے آرام نصیب نہیں۔ لوگ امداد کے منتظر ہیں۔ اگر لوگوں کو بروقت امداد نہیں پہنچا تو بہت سے قیمتی جانیں ضائع ہوجائیں گے۔ سرویسے بھی تو آپ لندن میں ہیں۔ بہانہ بھی ہے۔ اور دستور بھی، کچکول اُٹھائیں اور امداد مانگیں۔ تاکہ بر وقت لوگوں تک امداد پہنچ جائے۔ اور ہاں دوسری طرف سے ٹارگٹ کلنگ کی وجہ سے کئی جانیں ضائع ہوگئے۔ بہت سے لوگوں کو اغوا کردیا گیا۔ اور تیسری طرف سے پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال ہیں۔ غریب لوگ بہت پریشان ہیں۔ صدر مملکت عوام کا حال سن کر پریشان ہوجاتاہے۔ دل میں سوچتا ہے ”کاش“میں اس مصیبت کی گھڑی میں عوام کے ساتھ ہوتا۔ کسی ایک کی زندگی تو ضرور بچا سکتا۔ اسی لمحہ اُسے وزیر داخلہ کا خیال آتاہے۔ اور وہ وزیر کو ٹیلی فون کر کے پوچھتا ہے۔ کہ عوام کا حال سنائیں مجھے عوام کا حال ستا رہا ہے۔ وزیر جواب دیتاہے۔ ”سر“ بے فکر رہیں۔ حالات پر قابو پالیا گیا ہے۔ بارشیں تو خدا کی رحمت ہیں َ پچھلے کئی سالوں سے بارشیں نہیں ہوئی تھیں۔ اب بارش ہورہی ہے۔ سیلاب آیا ہے۔ لوگ خوشی سے سیلاب میں تہر رہے ہیں۔ بچے پانی کے اندر کھیلتے رہتے ہیں۔ عورتیں اپنے پُرانے کپڑے صاف کررہے ہیں۔ بنجر زمین سیر آب ہوگئے ہیں۔ کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کیلئے ایدھی صاحب کو الرٹ کردیا گیاہے۔ بادشاہ پھر سے پوچھتا ہے اچھا بیرون ملک سے امداد کا کچھ اعلان ہواہے۔ وزیر گرم جوشی سے ”کیوں نہیں کیوں نہیں“ ہمارا آقا امریکہ، ہمارا دوست کینڈا، ہمارا ہمسایہ ایران،ہمارا خیر خواہ چین، ہمارا دوست چاپان، اور بہت سے دوست ممالک نے بیلین ڈالر امداد دینے کا اعلان کیے ہیں۔ ویسے تو یونائیڈنیشن UN والے تو ہر وقت ہمارے ساتھ ہیں۔ صدر مملکت اور خوش ہوجاتا ہے۔ اچھا ٹارگٹ کلنگ اور ہڑتالوں کے بارے میں کیا حال حوال ہے۔ بے فکر رہیں جناب! ہم غنڈوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیں گے۔ جمعہ کے دن ویسے تو لوگ دکانیں بند کر کے چھٹی کرلیتے ہیں۔ کسی بھی ناخوشگوار حالات سے نمٹنے کیلئے رینجرز اور FC کو الرٹ کردیا گیاہے۔ ویسے تو آپ یہاں آکر کیا کرسکتے ہیں۔ آپ لند ن میں بیٹھ کر اپنی موقف کی اچھی طرح سے وضاحت کر سکتے ہیں۔ اور ہاں کچکول کو نہیں بھولنا۔ اور ساتھ ساتھ فرانس کا چکر بھی لگا لینا اور ہاں عوام کے بارے میں بالکل فکر نہ کریں کیونکہ ”یہاں ہر چیز خداکے سہارے چل رہا ہے“
مصنف شیکوف بلوچ

Encourage

No comments:

Post a Comment

apna qimat janay

اپنی قیمت جانیں یہ کہانی اس بارے میں ہے کہ آپ کو اپنی قدرو قیمت جاننا کتنا ضروری ہے۔ آپ کا وقار سونے اور زیور سے زیادہ قی...