Translate and read into your own language

میری تنہائی

Alones

میری تنہائی

میں اپنی منزل کی طرف جا رہا تھا سورج اپنی جگے سے ہٹ کر بہت نیچے آچکا تھا جس کی وجہ سے ریت کے ٹیلے گرم سے گرم تر ہو کر سُرخ سُرخ دکھائی دے رہے تھے گرم ہوا کی وجہ سے سانس لینا مشکل ہو رہاتھا۔ایسا لگ رہا تھا کہ آکسیجن بالکل نہیں۔میرے ارد گرد کسی جاندار شے کا وجود ہی نہیں تھاگرمی سے بچنے کیلئے ہر ایک اپنے کو سورج سے چھپا رہا تھا۔ تب میں نے سورج سے پوچھا کہ تم اپنی جگے سے ہٹ کر اتنے نیچے کیو ں آگئے ہو۔ دیکھئے تمھا ری وجہ سے چلنا مشکل ہو گیا ہے۔کوئی بھی جاندار شے دکھائی نہیں دے رہا ہر چیز تمھارے خوف سے اپنے آپ کو چھپا رہا ہے۔ زمین بھی تمھارا گرمی برداشت نہیں کر پا رہا۔سورج نے جواب دیا یہ وقت پوچھنے کا نہیں بلکہ اپنے آپ کو سھنبالنے کا ہے۔ میں اپنی منشاء سے چلتا ہوں اور میرا ایک ہی جگہ ہے میں کبھی اپنے چگہ کو تبدیل نہیں کرتا۔ یہ تو زمین ہے جو گردش میں ہے۔ اور وہ میرے ارد گرد چکر لگا رہا ہے۔ اور آج اس نے اپنی جگہ تبدیل کرکے مچھ سے نزدیک آنے کی کوشش کی ہے۔ میں آگ کا شعلہ ہوں۔ میرے نزدیک آنے کی کوشش مت کرو بلکہ دور سے دوستی کرو کیونکہ ”دور کے ڈول سہانے ہوتے ہیں“
پھر میں نے زمین سے پوچھا کہ تم سورج سے نزدیک جانے کیلئے دوسرا دن نہیں چن سکتے تھے۔ زمین نے جواب دیا کہ میں اپنی مدار میں گھومتا ہوں آج میں تھوڑا بہت ٹھنڈ محسوس کررہا تھامجھے سورج کی تپش کی ضرورت درپیش ہوئی جس کی وجہ سے میں نے اپنا بدن سورج کی طرف کر دیا ہے۔ تم اپنے لئے درخت کا سایہ ڈھونڈ کر اُس کے نیچے پناہ لینے کی کوشش کرو اور زمین چھپ ہو گیا۔میں لہو سے بچنے کیلئے ہر طرف نظریں دوڑا یا مگر مچھے سایہ دار درخت کہیں نظر نہیں آیا۔میں ایک چھوٹے سی درخت کے نیچے پناہ لینے کی کوشش کی۔مگر درخت چھوٹا ہونے کی وجہ سے اس کا سایہ بھی بہت کم تھا اور اس کا سایہ میرے جسم کے صرف آدھا حصہ کو چھپا سکتا تھا۔میں نے اسے غنیمت جان کر اپنا اپنا سر درخت کے سایہ پر رکھ لیا۔ مجھے پیاس لگ چکا تھا۔میرے ساتھ تھوڑا پانی بچا ہوا تھا مگر وہ بھی بہت گرم ہو چکے تھے۔میں نے پانی پینے کی کوشش کی پانی گرم ہونے کی وجہ سے میرے ہلک سے نہیں گذر رہے تھے۔جب میں ادھر اُدھر جھانکنے کی کوشش کی تو ہر طرف زردی سی بچھائی گئی تھی۔اب میں نہ آگے جاسکتا تھا اور نہ پیچھے۔میرے ارد گرد کسی جاندار شے کا وجود ہی نہیں تھامیرا آدھا حصہ سایہ اور آدھا سورج پر تھا۔سورج نے میرا ساتھ چھوڑ دیا اور ہوا سورج کے سامنے بے بس تھا۔ زمین اپنے غم میں مبتلا تھا۔ ہر جاندار شے اپنے کو بچانے کی تگ و دو میں تھا اب میرا اور خدا کے درمیان کوئی نہ تھا۔ تب میں نے اپنا چیرہ اوپر کر کے خدا سے عرض کی اے خدایا! قیامت مرنے سے پہلے آتا ہے یا مرنے کے بعد؟ اوپر سے کوئی جواب نہ آیا۔
پھر میں نے اگلا سوال کیا کہ کیا میرے مرنے کے بعد اس بیاباں میں میرے لاش کی دیدار کسی کو نصیب ہوگی یا نہیں؟ پھر بھی کوئی جواب نہیں آیا
پھر میں نے تیسرا سوال کیا۔ کہ جس مقصد کی خاطر میں گھر سے نکل چکا ہوں کیا وہ ادھورا رہ جائے گا؟ پھر بھی کوئی جواب نہیں ملا۔
پھر میں نے چوتھا سوال کیا۔ کیا میں اس ویرانے میں کے گھٹ گھٹ کر بغیر دیدار کے اس دُنیا کو چھوٹڑجاؤں گا۔ پھر بھی کوئی جواب نہیں ملا۔
شیطان مجھے اس حالت میں دیکھ کر ہنس رہا تھا۔ تب میں نے شیطان سے پوچھا کہ تم کیوں ہنس رہے ہو۔ کیا میں نے کوئی خراب سوال کیاہے۔ یا کوئی گناہ کیا ہے؟نہیں نہیں تم نے تو بہترین سوالات کئے ہیں مگر شاید تمھیں پتہ نہیں کہ خدا انسان کے ساتھ براہ راست بات نہیں کرتا۔ جب انسان پاگل ہو جاتا ہے تو یہی سمجھنے لگتا ہے کہ وہ خداکے ساتھ براہ راست بات کر رہا ہے۔ اب تمھیں بچانے والا کوئی نہیں تم یہاں گھٹ گھٹ کر مر جاؤ گے۔تمھاری دیدار کسی کو نصیب نہیں ہو گی۔تمھارے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے جانور کھا لیں گے۔تمھاری ہدیا ں ہر طرف پھینکے جائیں گے۔ تم اپنے مقصد میں اُس وقت تک کامیاب نہیں ہو جاؤ گے جب تک تم خدا کو بھول کر میرے احکامات پر عمل نہیں کرو گے۔جو نم نے سوچا تھا وہ سب بھول جاؤ۔اب اپنی موت کا انتطار کرو تمھیں بچانے والا کوئی نہیں۔ آؤ میرا ساتھی بنو۔ میرا پھیروی کرو۔ میری نصیحتوں پر عمل کرو۔میں تمھیں دُنیا میں ہیرو بناؤں گا۔ ہر طرف تمھاری چرچا ہو گی۔ دولت کمانے میں میں تمھارا مد د کروں گا جب تم دولت مند بن جاؤ گے تب لو گ خود بخود تمھاری عزت کریں گے۔ کیا میرا ساتھ بنو گے؟
میں غصے میں آکر اُٹھ کر کہا نہیں ایسا نہیں ہو سکتا مجھے پتہ ہے کہ ”جس کا کوئی نہیں تواُس کا خدا ہوتا ہے“مجھے خدا پر پورا بھروسہ ہے۔ میں جس مقصد کے خاطر گھر سے نکلا تھا۔ میرا وہ مقصد ضرور پورا ہو جائے گا۔ تم کون ہو جو میرے اور میرے خدا کے درمیان بولنے والے۔ مجھے اپنی خدا پر پورا یقین ہے۔ اور یقین ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔ جب میں دوبارہ شیطان کر طرف سر اُٹھا کر دیکھا تو وہ غائب ہو چکا تھا۔درکتون کے سایے بڑھ چکے تھے سورج کی گرمی کم ہو چکی تھی۔پانی ٹھٹندے ہو چکے تھے۔ میں نے خدا کا نام لے کر پانی پیا ادھر اُدھر نظریں دوڑائے زردی ختم ہو چکی تھی اور مین اپنے آپ کو اچھا محسوس کر نے لگا۔ تب مجھے ایک دانشور کا قول یا د آیا
”جب تقدیر کسی پر مہربان ہوناچاتی ہے۔ تو پہلے اسے مشکالت میں ڈال کر اس کا امتحان لیتی ہے۔ کہ آیا یہ انسان اس قدر مضبوط ہے کہ کامیابی کا تاج اس کے سر پر رکھا جائے“
اب میرے پاؤں میں طاقت آرہا تھا اور میں نے خدا کا شکر ادا کر کے اپنی منزل کی طرف واپس روانہ ہو گیا۔

مصنف: شیکوف
Alones, When i was alone between the hot sends. Urdu Article written by Shaikof

Alones

No comments:

Post a Comment

apna qimat janay

اپنی قیمت جانیں یہ کہانی اس بارے میں ہے کہ آپ کو اپنی قدرو قیمت جاننا کتنا ضروری ہے۔ آپ کا وقار سونے اور زیور سے زیادہ قی...