Translate and read into your own language

خوبصورتی

خوبصورتی

خوبصورتی خُدا کی ایک نعمت ہے۔چاہے انسان ہو یا حیوان،پرند ہو یا چرند،زمین ہو یا آسمان،ستارے ہو یا سیارے۔اس دنیا میں ہر چیز میں کچھ نہ کچھ خوبصورتی ضرور پائی جاتی ہے۔ جہاں خوبصورتی ہوتی ہے وہاں امن ہوتا ہے،پیار محبت ہوتا ہے،خوشحالی ہوتی ہے یقینا جہاں خوبصورتی ہوتی ہے اُس جگہ میں کشش ہوتی ہے اور وہ لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے چاند کی خوبصورتی کیوجہ سے لوگ اپنے محبوب کو چاند سے تشبیع دیتے ہے سمندر کی خوبصورتی کی وجہ سے لوگ سمندر کے کنارے آرام کرنے کے لئے چلے جاتے ہیں۔لڑکیاں نوجوانوں کو اپنی طرف مائل کر نے کرنے کے لئے اپنے آپ کو خوبصورت بناتے ہیں اچھے اچھے کپڑے پہنتے ہیں، آنکھوں میں کاجل، ہونٹوں پہ سرخی لگا لیتے ہیں۔ جب بھی کوئی آدمی اپنے آپ کو سُست،بے چین،تھکا ماندہ محسوس کرتا ہے تو پھر وہ خوبصورت جگہوں کا رُخ کرتا ہے۔خوبصورت جگہ خُدا کا کرشمہ ہوتا ہے۔خود بخود لوگوں کی تھکاوٹ،بے چینی سُست روی کوختم کرتا ہے اکثر لوگ اپنے گھروں کو خوبصورت بنانے کے لئے نئے ڈیزائن تلاش کر تے ہیں خوبصورت اورمہنگے چیز خرید کر اپنے گھروں کی سجاوٹ کرتے ہیں گھروں کے سامنے مختلف پھول پودے اُگاتے ہیں تاکہ جس گھر میں وہ رہ رہے ہیں وہاں ان کو آرام نصیب ہو آج کل جتنی نئی چیز یں ایجاد ہوتے ہیں۔اُن کو دُنیا میں لوگوں کے سامنے لانے سے پہلے اُن کی خوبصورتی پر زیادہ سے زیادہ توجہ دیا جاتا ہے۔تاکہ اُس چیز میں کشش ہو اور وہ لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں لوگ زیادہ کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ تھکاوٹ،بے چینی،سست روی کا شکار ہو تے ہیں۔اس بے چینی اور بے آرامی کو دور کر نے کے لئے خوبصورت پارک بنائے جاتے ہیں نئے ڈیزائن کے نئے عمارات بنائے جاتے ہیں سڑکوں کو کشادہ کیا جاتا ہے صفائی پر زیادہ زور دیا جاتا ہے آفسوں کو خوبصورت،گھروں میں سجاوٹ،خوبصورت گاڑیا ں،خوبصورت نظارے، غرضیکہ کوئی ایسی چیز جس پر لوگوں کی نظریں پڑیاں خوبصورت دکھائی دے اور اس خوبصورتی کی وجہ سے لوگ بارہ گھنٹہ کام کرنے کے بعد بھی اپنے آپ کو تھکاماندہ محسوس نہیں کرتے اور خوبصورتی کی وجہ سے لوگ زیادہ کا م کرتے ہیں۔ خوبصورتی لانے کے لئے زیادہ محنت کرتے ہیں جہاں خوبصورتی ہوتی ہے وہاں ترقی ہوتی ہے اور وہاں امن بھی ہوتاہے۔ترقی پذیر ملکوں میں خوبصورتی نہ ہونے کی وجہ سے لوگ بے چینی کا شکار ہوتے ہیں اکثر لوگ پرانے گھروں میں رہتے ہے۔گھروں کے سامنے پھول اور پودوں کا نام ونشان ہی نہیں ہوتا۔گلیاں گندگی سے بھرے ہوتے ہیں نالیوں سے بدبو آتا ہے۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں،عمارات پرانے،دکانوں میں کوئی سجاوٹ نہیں۔آفسوں میں خوبصورتی کا کوئی نام و نشان ہی نہیں لوگ جہاں بیٹھتے ہیں وہاں فخر سے گندگی پھیلاتے ہیں گندے نالیوں کے کنارے بیٹھ کر چائے پی کر بدبُو سونگھتے رہتے ہیں۔ پارکوں کا کوئی نام و نشان نہیں اگر کوئی پارک بنایاجاتا ہے تو دوسرے ہی دن اُس پارک کی خوبصورتی کو ختم کرنے کے لئے لوگ بے چین ہوتے ہیں۔ایک ہفتے کے اندر اندر اُس کے چیزوں کو تھوڑ پھوڑ کر اورچوری کر کے ہر چیز کو تباہ کیا جاتا ہے بعد میں کچھ لوگ وہاں چرس پی کر پیشاب کرتے ہیں کچھ دنوں کے بعد اُس پارک سے صرف اور صرف بدبُو ی آتارہتا ہے۔جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگوں کو آرام نصیب نہیں ہوتا۔ اکثر بے چین رہ کر کام کرنا نہیں چاہتے ۔ جب لوگ کام ہی نہیں کر تے تو پیسے کہاں سے آتا ہے۔جب پیسہ ہی نہ ہو تو ترقی کس طرح ہوتا۔جب ترقی ہی نہ ہو تو خوبصورتی کیسے آتا ہے۔ ہمارے ہا ں آج کل لوگ بے چینی کا شکار ہیں۔اس کی سب سے بڑی وجہ خوبصورتی کا نہ ہونا ہے۔لوگ ساری رات سونے کے بعد جب تھوڑابہت ریلیکس ہوتے ہے اور صبح اُٹھنے کے بعد جب ان کی نظریں گندے چیزوں پر پڑتے ہیں گندے نالیوں کا بد بُو ان کے دماغ میں گھُس جاتا ہے تو وہ بے چینی میں مبتلا ہوتے ہیں اور اس بے چینی کو ختم کرنے کے لئے منہ کو نسوار سے بھر لیتے ہیں۔تھوڑی دیر کے بعد باربار اپنے ہی سامنے تھوکتے رہتے ہیں یا نالیوں میں پیشاب کرنے لگتے ہیں اور گندگی کو مزیر بڑھاتے ہیں۔وہ یہی سمجھتے ہیں کہ نسوار منہ میں ڈالنے کے بعدان کی بے چینی کم ہوجاتی ہے مگر وہ اور زیادہ بے چین ہوتے ہیں بعد میں صرف گلیوں کو ناپتے رہتے ہیں۔اور کسی کام کے ہی نہیں ہوتے ۔اس گندگی اور بد بو کی وجہ سے اکثر طالب علموں میں پڑائی کا کوئی رجحان ہی نہیں ہو تا۔یقینا اگر ایک طالب علم صبح گھر سے نکلے اور اُس کی نظریں گندے چیزوں پر پڑے۔
نالیوں کے بدبو اُس کے دماغ میں گھس جائے، کانوں میں شوروغل اور گاڑیوں کی ہارن کی آواز پڑنے کے بعد وہ خود بخود بے چینی میں مبتلا ہوتا ہے۔تو اُس بچے میں پڑھائی کا شوق کیسے پیدا ہوتا۔ کام کرنے اور پڑھنے کے لئے فریش ذہن کی ضرورت ہوتی ہے۔جب تک انسان کا ذہن فریش نہ ہو۔ اُس وقت تک نہ وہ پڑھ سکتا ہے اور نہ وہ کام کر سکتا ہے۔جس کی وجہ سے وہ صرف باتیں کرتا رہتا ہے۔اور باتیں بھی ایسا کرتا ہے اگر کوئی آدمی اُس کی باتیں سُنیں تو یہی سمجھے گا کہ دُنیا اس کے ہاتھ میں ہے جو وہ چاہے وہ کرسکتا ہے۔مگر ایسا نہیں ہوتا کیونکہ بڑے بڑے دانشور لوگ ریسرچ کرنے کے بعدا قوال لکھتے ہیں۔ جیسا کہ ڈاکٹر نپولین کا لکھتاہے کہ ”انسان اپنی باتوں سے نہیں بلکہ اپنے کردار سے پہچانا جاتا ہے“
ہمارے ہاں لوگوں کا کوئی کردار تو ہوتاہی نہیں جس کی وجہ سے اُن کو پہچاننا بھی مشکل ہوتا ہے۔اور اکثر لوگ اسی وجہ سے افراتفری،بے چینی کا شکار ہیں اور اس بے چینی اور افراتفری کو ختم کرنے کے لئے اور کوئی راستہ ہی نہیں۔صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے۔ ”خوبصورتی“ جس وقت خوبصورتی آئے گا۔اُسی وقت گندگی ختم ہو جائے گی۔جب گندگی ختم ہو گا تو بے چینی بھی ختم ہوگا۔جب بے چینی ختم ہوگا۔ تو سُست روی بھی ختم ہوگا۔تب لوگ اپنے آپ کو فریش اور چُست محسوس کریں گے۔تو یقینا و کام کرنا شروع کریں گے۔ذہن کام کرنا شروع کرے گا۔طالب علم پڑھائی پر توجہ دیں گے۔ٹیچرز پڑھانے میں محنت کریں گے۔پیسے بھی آئے گا۔ترقی بھی ہوگی اور خوشحال زندگی شروع ہوگا۔ ”خوبصورتی خوشحالی کی ضمانت ہے“ ” اور خوشحالی امن کا گہوارہ ہے“
مصنف شیکوف بلوچ

khobsorathi

No comments:

Post a Comment

apna qimat janay

اپنی قیمت جانیں یہ کہانی اس بارے میں ہے کہ آپ کو اپنی قدرو قیمت جاننا کتنا ضروری ہے۔ آپ کا وقار سونے اور زیور سے زیادہ قی...