Translate and read into your own language

معاشرہ

How to Change Society

معاشرہ

’قدیم ہندوستانی داناؤں کا کہناتھا۔ کہ ہم پر پہلی ذمہ داری ہماری برادری کی ہوتی ہے۔ پھر خاندان کی اور پھر ہماری اپنی جب یہ تربیت الٹ جاتی ہے۔ تو معاشرہ تباہ ہو جاتاہے“
جب لوگ کسی معاشرے میں رہتے ہیں۔ تو وہ اپنے رسم رواج و رہن سہن کے طور طریقوں کے عادی ہوجاتے ہیں تب وہ یہی سمجھنے لگتے ہیں۔ کہ ان کا معاشرہ سب سے اچھا ہے۔جب کبھی دوسروں کے رسم رواج ورہن سہن کے طور طریقوں کو دیکھتے ہیں تو وہ انھیں پسند نہیں کرتے بلکہ انھیں خراب کہتے ہیں۔اب سوال یہ ہے۔ کہ جس معاشرے میں آپ رہتے ہیں وہ معاشرہ اچھا ہے۔ جس میں نہیں رہتے وہ بُرا ! کیوں؟
یا ہمارے رسم ورواج، رہن سہن اچھے ہیں۔ دوسروں کے خراب! کیوں؟
یہ سوال ہر جگہ اور ہر معاشرہ میں اُٹھتا ہے۔ ہرعلاقے کے رہنے والے لوگ اپنے رسم رواج کو دوسروں پر ترجیع دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس طرح دانشور کا کہنا ہے
”آپ دُنیا کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ اگر آپ یہ جان لے کہ دُنیا آپ کو کس نگاہ سے دیکھتی ہے۔ تو آپ پریشان ہوں گے۔“
اور دوسرا بڑاسوال زیادہ ترلوگ کرتے ہیں۔ کہ معاشرہ لوگوں کو بناتاہے۔ یعنی جس طرح کا ماحول ہوگا۔ اُسی طرح کے لوگ ہوں گے۔ بہت سے لوگ اسی بات پر متفق ہیں کہ جس معاشرہ میں آپ رہیں گے۔ اُسی طرح کا بن جائیں گے۔ یا بہت سے لوگ مجبوراََ اپنے کو اُسی مطابقت سے ڈھال دیتے ہیں۔ ایک آدمی نے شیخ سعدی ؒ سے سوال کیا۔ کہ آپ نے علم کہاں سے سیکھا؟ شیخ سعدیؒ نے جواب دیا۔ کہ جائلوں سے وہ آدمی نے پھر سوال کیا وہ کیسے؟ شیخ سعدیؒ نے کہا کہ میں اکثر جائلوں کے مجالس میں بیٹھتا تھا۔ اور جائل لوگ ہر قسم کی باتیں کرتے تے۔ مثبت باتوں کو میں اپنے ذہن میں بٹھایا اور منفی باتوں کو ذہن سے نکال دیا۔ اسی طرح میں نے علم حاصل کیا۔ اگر ہم شیخ سعدیؒ کے جواب پر توجہ دیں تو ہمیں ایک بات سمجھ آئیگا سب سے اہم چیز وہ ہے۔ انسان کا ذہن(دماغ) اگر انسان اپنے ذہن کو مثبت سوچوں کیلئے استعمال کرے تو اُس کا ذہن ہر وقت مثبت سوچے گا۔ اگر منفی سوچوں کیلئے استعمال کرے تو اُس کا ذہن ہر وقت منفی سوچے گا۔ جہاں تک معاشرے کا تعلق ہے۔ معاشرہ خود نہیں بنتا۔ معاشرے کو بنایا جاتاہے۔ اور معاشرہ انسان کے ذہن کے مطابقت سے بنتا ہے۔ جس طرح کا معاشرہ آپ چاہتے ہیں۔ اُسی طرح کا معاشرہ آپ کو ملے گا۔ ٍآپ جس علاقے میں رہتے ہیں۔ اورجن لوگوں کے ساتھ آپ کے تعلقات ہوتے ہیں۔ اُسی علاقے اور لوگوں کے مناسبت سے معاشرہ یعنی ماحول وجود میں آئے گا۔ اور یہ ان لوگوں کے سوچوں پر منحصر ہوتاہے۔ کہ وہ کس ڈھنگ سے رہنا چاہتے ہیں۔ اور کیسے رہنا چاہتے ہیں۔ آج اگر ہم ترقی یافتہ ملکوں کے معاشرے پر نظر دوڑائیں تو یورپ کے سارے ملکوں میں لوگ پینٹ اور شرٹ پہنتے ہیں۔ اگر ہم اُن کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یورپ کے ہر قوم کا معاشرہ یعنی رسم ورواج ایک دوسرے سے الگ ہوا کرتا تھا۔ ہر ایک کا اپناایک رسم ورواج تھا۔ ہر ایک اپنے علاقے کے مناسبت سے اپنے رسم ورواج کے مطابق زندگی بسر کرتا تھا۔ اُس وقت وہ لوگ اُس معاشرے کو اچھا سمجھتے تھے۔ مگر لوگوں نے تعلیم حاصل کی جس کی وجہ سے اُن کے اندر شعور آگیا۔ اور آج ہر ایک تعلیم یافتہ شخص اپنے کو سب سے پہلے انسان سمجھتا ہے۔ اگر کوئی اپنے کو انسان سمجھنے لگتاہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ سارے لوگ برابر ہیں۔ کسی کا معاشرہ دوسرے سے برتر نہیں ہو۔ آج سارا یورپ ایک ہی ڈھنگ سے رہتاہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ سارے یورپ میں ایک جیسا معاشرہ ہے۔ اسی لیے وہاں ایک ملک سے دوسرے ملک جانے کیلئے ویزے کی بھی ضرورت نہیں۔ جہاں تک ثقافت کا تعلق ہے۔ وہ تو ہر ایک قوم کی اپنی پہچان ہے۔ اُسے کوئی کسی چھین نہیں سکتا۔ مثلاََ اگرکوئی غیر ملکی پہلی بار یوکرائن کا دورہ کرنے کے لیے جاتاہے۔ تو یوکر ائن پہنچتے ہی یوکرائنی لوگ سب سے پہلے اسے اپنے ثقافت سے آگاہ کرتے ہیں۔ مثلاََ کچھ لوگ رسم رواج کے مطابقت سے ثقافتی کپڑے پہن کر ایک ڈبل روٹی کے اوپر تھوڑا سا نمک ڈال کر اُس نئے آنے والے کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ کہ یہ ہمارا ثقافت ہے۔ وہ آدمی یوکرائن کے رسم رواج سے پہلے ہی دن واقف ہوجاتاہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر آدمی ثقافتی کپڑے پہن کر اُسے دکھائے کہ یہ ا ن کا رسم رواج ہے۔ اُس آدمی نے پہلی بار دیکھ لیا اور سمجھ گیا۔ اب یہاں پر سب سے اہم سوال ہے۔ کہ دوسرے ملکوں میں لوگ آنے والے دورکے مطابق معاشرہ تشکیل دیتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں معاشرہ لوگوں کو بناتاہے۔ کیوں؟ یعنی یقینا اس سوال کا جواب آپ کے پاس ہونا چاہیے۔ کہ ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ وہ اَنا یعنی لاشعوری کاہے۔ یعنی ہم اَنا کے خول سے نہیں نکل سکتے۔ ہمارے ہاں جب تک اَنا کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اُس وقت تک معاشرہ ہمیں بناتا جائے گا۔ چاہے وہ معاشرہ کتناہی بیک ورڈ کیوں نہ ہو۔ ہمیں اُسی کے مطابقت سے زندگی بسر کرنا ہو گا۔ یقینا اَنا سے چھٹکارا پانے کیلئے علم اور جرآت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب تک صحیح تعلیم حاصل نہیں کیا جاتااُس وقت تک اپنے اندر جرات پیدا نہیں کیا جاسکتا۔ جس کی وجہ سے معاشرے کا سامنا نہیں کیا جا سکتا۔ اور اُسی وقت تک معاشرہ ہم پر حاوی رہتا ہے۔
آئیے تھوڑا سوچ فکر کریں۔ یہ موبائل جو آپ استعمال کررہے ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کا حصہ نہیں تھا۔ یہ ٹیلی ویژن، یہ کمپیوٹر، انٹرنیٹ،روبوٹ، ہوائی جہاز وغیرہ یہ ہمارے معاشرے کے حصے نہیں تھے۔ مگر آج وہ ہمارے معاشرے کے حصے کیسے بنیں؟ یہ ٹیکنولوجی تو انگریزوں نے ایجاد کی ہوئی ہیں۔ موبائل جو 24 گھنٹے ہمارے ہاتھ میں ہوتاہے۔ جس سے ہم سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ مگر یہ ہمارے ثقافت کا حصہ نہیں تھا۔ اور نہ ہم لوگوں نے ایجاد کیا سوال یہ ہے کہ یہ ٹیکنولوجی انگریزوں نے ایجاد کیا اور ہم نے اسے اپنے معاشرے کا حصہ بنایا کیوں؟
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر نئی چیز جب انسان کی ضرورت ہوتی ہے۔ تو وہ آٹومیٹک معاشرے کا حصہ بن جاتا ہے۔ تو اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ معاشرہ حالات کے مطابق تبدیل ہوتارہتاہے اور انسان اپنے حالات کو ہر وقت بدلتا رہتا ہے۔ ہم اپنے لیے اس طرح کا معاشرہ بنانے کی کوشش کریں۔ جووقت اور حالات سے مطابقت رکھتاہو۔ دُنیا ہر آن بدل رہی ہے۔ اور ہمیں حالات کے مطابق بدلنا ہو گا۔دُنیا کی نئی ٹیکنولوجی سے فائدہ اُٹھا کر اُسی مطابقت سے زندگی بسر کرنا چاہیے۔ معاشرے میں جوخرابیاں ہیں۔ اُن کو باہر نکال دیا جائے۔ حالات کے مطابق علمی حوالے سے ایک اچھا معاشرہ قائم کیاجائے تاکہ ہمارے آنے والی نسل کو مشکلات کا سامنا نہ ہو۔ جب تک ہم معاشرے کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ اُس وقت تک ہم دُنیا سے سینکڑوں سال پیچھے رہ جائیں گے۔ اگر ہمیں دُنیا کے دوسرے قوموں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہے۔ تو حالات کے مطابقت سے اپنے کو تبدیل کریں۔ ظاہر سی بات ہے۔ معاشرہ کو تبدیل کرنے سے پہلے اپنے آپ کو تبدیل کرنا پڑتاہے۔ اپنے کو تبدیل کرنے کیلئے شعور کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور شعور نئے کتابیں پڑھنے، نئے ٹیکنولوجی کو سمجھنے نئی دُنیا کے ساتھ رابطہ رکھنے سے حاصل ہوتی ہے۔
”اکثر معاشرے بدمعاشوں کی کاروائیوں کی وجہ سے نہیں۔ بلکہ اچھے لوگوں کے نہ کرنے کی وجہ سے تباہ ہوئے ہیں۔ اگر اچھے لوگ بے عمل رہ کر معاشرے کی تباہی کو برداشت کر سکتے ہیں تو وہ کہاں کے اچھے لوگ ہیں“
”شوکھیڑا“



(مصنف: شیکوف بلوچ)

How to Change Society, Urdu Articles written by Shaikof

How to Change Society

No comments:

Post a Comment

apna qimat janay

اپنی قیمت جانیں یہ کہانی اس بارے میں ہے کہ آپ کو اپنی قدرو قیمت جاننا کتنا ضروری ہے۔ آپ کا وقار سونے اور زیور سے زیادہ قی...