Translate and read into your own language

مجھے پہچانیے

مجھے پہچانیے

مجھے پہچانیے میں کون ہوں؟
میں مئی کا سردارہوں میں اپنے نام کے ساتھ ہمیشہ”میر“کا لفظ استعمال کرتا ہوں میں ہرجگہ موجود ہوتا ہوں میں پارٹیوں میں شمولیت اختیارکرکے حکومت کو بلیک میل کرتا ہوں۔ میں حکومت کے اندر اس لئے ہوتاہوں تاکہ عوام کو بے وقوف بنا سکوں میں عوام کے اندر اس لئے ہوتا ہوں تاکہ اُن کی حمایت حاصل کروں۔ مجھے جب کسی آفس میں نوکری ملتا ہے۔ تو میرے چارچاند لگ جاتے ہیں۔ میں ٹائم پر کبھی بھی کام پر نہیں جاتا کیونکہ کام کرنا میں نہیں جانتا اور نہ کام کرنا چاہتا ہوں۔ پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا اگر کوئی افسر مجھ سے عہدے میں بڑا ہے تو وہ مجھ سے دو گناہ زیادہ کام چور ہیں میں آفس میں صرف اور صرف حاضری لگانے کیلئے جاتا ہوں کیونکہ جس نے بھی رجسٹر میں اپناحاضری لگایا تو وہ سب سے بڑا ایماندار ہے۔ اسی طرح اسکولوں میں میں ایک ماسٹر کی حیثیت سے کام کرتاہوں مگر میں بچوں کو نہیں پڑھاتا اور نہ اُن کی زندگی سے مجھے کوئی سروکار ہے۔ مجھے تو اپنی تنخواہ سے کام ہے بچوں کی زندگی تباہ کرنے میں میں اہم کردار اداکرتاہوں کیونکہ میرے اپنے بچے پرائیوٹ سکولوں میں پڑھتے ہیں اگر میں ان بچوں کو پڑھاؤں گا تو کل میرے لیے مسئلہ پیدا کرینگے۔ اُن میں قابلیت آئے گی تو وہ ہمارے بچوں کے مقابلے میں کھڑے ہونگے اس لیے میں اُن کو نہیں پڑھاتا تاکہ وہ جیسے تھے ویسے رہے ظاہر سی بات ہے تعلیم حاصل کرنے سے انسان کے اندر شعور آئے گا۔ جب اُن کے اندر شعور آئے گا تو ہم کام چوروں کا کیا بنے گا۔ ا سی طرح واپڈا کا مثال لے لیں ہمارے درمیان کوئی پروفیشنل بندہ نہیں کہ وہ صحیح مانے میں بجلی کا مسئلہ حل کرسکے بجلی کا نظام درم برہم ہے لوڈ شیڈنگ ہی لوڈشیڈنگ ہے بجلی خرچ ہی نہیں ہوتا مگر بل تو عوام کو بھرنا ہوتا ہے بجلی ہو یا نہ ہو بل ضرور آتا ہے۔ پیسے عوام کو بھرنے پڑھتے ہیں جوبھی کمپنی والا بجلی زیادہ خرچ کریگا اُس کے ساتھ میں معاہدہ کرتا ہوں اور وہ پیسے خود لیکر اپنے جیب میں ڈالتا ہوں تھوڑی بہت گورنمنٹ کو دیکر اُس کا دل بھی خوش کرتا ہوں اگر کوئی پیسے دینے سے انکار کریگا تو اُس کی میٹر کو بند کرکے بجلی کی تاروں کو کٹواتاہوں وہ مجبور ہوکر خود بخود مجھے منت سماجت کریں گے کیونکہ میں مئی کا سردار ہوں۔ جس دن سے میں اپنے نیا کام کو سنبھالا ہے اُس دن سے آج تک مجھے کوئی پوچھنے والا پیدا نہیں ہوا۔ میں آفس جاؤں یا نہ جاؤں میرے حاضری خود بخود لگ جاتاہے میرے غیر موجودگی میں آفیسر بالا اور زیادہ خوش ہوتاہے۔کیونکہ وہ مجھ سے ایک قدم آگے ہیں۔ کسی بھی ادارے میں آپ جائیں چیک کریں تو آپ کو کام کرنے والا ایک بندہ بھی نہیں ملے گا کیونکہ ہم اپنے یونین بناتے ہیں اور کام نہ کرنے کی قسم کھاتے ہیں جو بھی ایمانداری سے کام کرنا چاہے گا اُ سکے سامنے رکاوٹ بنے گیں۔ اگر گورنمنٹ ہمیں نکالنے کی کوشش کریگا تو ہم یونین کا سہارالیکر بھوک ہڑتال کرینگے۔ میں صحافی کی حیثیت سے بھی کام کرتا ہوں۔صحافی حضرات ہمارے بھائی ہیں نام تو اُن کا صحافی ہے مگر کام اُن کا اخباری ہے۔ وہ بلیک میلنگ میں بھی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں اُس بیچارے کا تو بھی کوئی قصور نہیں کیونکہ اگر وہ ایمانداری سے کام لینگے توہمارے سارے راز لوگوں پر عیاں ہونگے پھر ہم انھیں برداشت نہیں کریں گے اس لیے ہم اُنھیں کچھ جیب خرچی دیکر اُن کے دلوں کو خوش کرتے ہیں وہ ہمارے تصاویر کھینچیں گے ہمارے لئے اخبارات میں بیان جاری ہونگے ہمیں بے قصور قرار دیا جائے گا۔ ہرجگہ ہماری چرچا ہی چرچا ہوگا۔ عوام کی حمایت حاصل ہوگی حکومت وقت گھٹنے ٹھیکنے پر مجبور ہوگا مگر حکومت کے اندر بھی ہم خود ہوتے ہیں اور ہم نے کام نہ کرنے کی قسم کھائی ہے۔
میں شکاگو والوں سے نہیں بلکہ اُن سے میں بالکل مختلف ہوں میراراستہ اُن سے بالکل جدا ہے۔ وہ تو ایماندار تھے وہ اپنے قوم کے ساتھ مخلص تھے انہوں نے نہ صرف انقلاب لائے بلکہ وہ اپنی قوم کو ستاروں تک پہنچایا انہوں نے ایمانداری کا دامن تھام کر اپنے فرائض سرانجام دئیے اُن کی محنت کی بدولت آج اتنے ایجادات ہوئے کہ آج انسان نے مریخ جیسے سیاروں تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ سالوں کے کام دنوں میں اور مہینوں کا کام گھنٹوں میں ہونے لگے۔ یہ ہوائی جہاز، خلائی شٹل، روبوٹ، کمپیوٹر، انٹرنیٹ، موبائل، ٹو ڈی گاڑیاں وغیرہ یہ سب تو انہوں نے ہی ایجاد کئے ان کی وجہ صرف اور صرف ایمانداری سے اپنی فرائض سرانجام دینا تھا اور وہ اپنے قوم کے ساتھ مخلص تھے میرا راز یہ ہے کہ میں اسکولوں میں تعلیم پر توجہ نہ دی امتحانوں میں اپنے جگے پر ڈبلیوکیٹ بٹھایا کیونکہ مجھے تو لکھنا بھی نہیں آتا۔ اچھے نمبر حاصل کرنے کیلئے سفارش اور رشوت کا سہارالیا نوکری دلوانے کیلئے ہمارے وزیر صاحبان نے اپنے ہاتھ میرے سر پر رکھے اور آج میں مئی کا سردار ہوں۔میں اپنے ہی قوم کا دشمن ہوں میں اپنے قوم کے سامنے رکاوٹ ہوں میں اپنے ہی نسل کی زندگی تباہ کرنے میں اہم کردارادا کررہا ہوں۔ مجھے قوم اور سرزمین کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں میں تو پیٹ کا پجاری ہوں اب آپ میرے رازوں سے واقف ہوگئے تو پھر مجھے سیدھے راستے پر لانے کی زحمت کرو کیونکہ جب تک میں سیدھے راستے پر نہیں آتا اُس وقت تک قوم کی ترقی ناممکن ہے میں تو ہرجگہ موجود ہوں اور ہرجگہ آپ کے سامنے رکاوٹ ہوں اگر اب بھی آپ مجھے نہیں پہچانیں گے میرے خلاف اقدام نہیں کرینگے تو ہزاروں سال پیچھے رہ جائینگے۔
مصنف شیکوف بلوچ

مجھے پہچانیے

No comments:

Post a Comment

apna qimat janay

اپنی قیمت جانیں یہ کہانی اس بارے میں ہے کہ آپ کو اپنی قدرو قیمت جاننا کتنا ضروری ہے۔ آپ کا وقار سونے اور زیور سے زیادہ قی...