Translate and read into your own language

اپنے اوقات مت بھولو

اپنے اوقات مت بھولو

سردار صاحب پہلی بار انتخابی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا۔ اور انتخابی مہم کیلئے روانہ ہوگیا۔اُس وقت اُس کے پاس ایک پرانا جیپ اورچار رشتہ دار تھے۔ سردار صاحب نوجوان تھا۔ چہرے سے شریف لگ رہا تھا۔ لوگوں سے آنکھ ملا کر بات نہیں کرتا۔ جس کی وجہ سے اُس کے چہرے سے محصومیت کی بو آرہی تھی۔ وہ ہر جگہ جاتا قومی سوال اُٹھاتا۔ کہ ہمارے حقوق نہیں مل رہے۔ ہمارے حقوق کو غضب کیا جارہا ہے۔ لوگ بے روز گار ہیں۔ لوگ غریبی میں مبتلا ہے۔ نوجوان طلباء غریبی کی وجہ سے پڑھائی چھوڑدیتے ہیں۔ انسٹیٹوٹس کا وجود نہیں۔ سارے روڈ توڑ پھوڑ کا شکار ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری کا ہے۔ بے روزگارنوجوان در در کے ٹوکریں کھا رہے ہیں۔ اگر میں برسرا اقتدار آیا تو سب سے پہلے بے روز گار نوجوانوں کو کام دلاؤں گا۔ اور قومی حقوق کی آواز اسمبلی میں بلند کروں گا۔ روڈ وں کو شیشے کی طرح بناؤں گا۔ غریب طلباء کو مفت تعلیم کے ساتھ ساتھ سکالرشپ دلاؤں گا۔ زمینداروں کو بلڈوزر کے گھنٹے مفت دلاؤں گا۔ مجھے اپنی قوم کا احساس ہے۔ مجھے اپنی سرزمین کا احساس ہے۔ مجھے غریبوں کا احساس ہے۔ مجھے طالب علموں کا احساس ہے۔۔۔۔۔۔
اور بہت سے باتیں کہے جو اکثر انتخابی مہم کے دوران کہے جاتے ہیں۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ سردار صاحب پڑھا لکھا ہے، شریف ہے، محصوم ہے۔ باتیں بھی اچھی کرتے ہیں۔ تو لوگوں نے سردار صاحب کو یقین دلایا۔ کہ اس بار ووٹ اُس کو ہی ملیں گے۔ جب انتخابات شروع ہوئے تو سردار صاحب قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی دونوں سیٹوں کیلئے انتخابی مہم میں حصہ لیا۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت دوسروں کو کنوس کر رہے تھے۔ کہ اس بار ووٹ سردار صاحب کو ہی دینا ہے۔ اپنی گاڑیاں استعمال کررہے تھے گاڑیوں میں تیل اپنے جیبوں سے ڈال رہے تھے۔غرض یہ کہ سردار صاحب کو کامیاب کرنے کیلئے ہر آدمی نے اہم کردار ادا کیا۔ انتخابات ختم ہونے کے بعد لوگ رزلٹ کے انتظار کر رہے تھے۔ دوسرے دن انتخابی کمیشن نے اعلان کیا۔ کہ سردار صاحب قومی اور صوبائی اسمبلی کے دونوں سیٹ جیت گئے ہیں۔ لوگوں نے مٹھائیاں تقسیم کرنے شروع کیے۔ ہر طرف لوگ خوشیاں منا رہے تھے۔ کہ قوم کا خیرخواہ سردار جیت گئے ہیں اب ہمیں ہمارے حقوق مل جائیں گے۔ سردار صاحب اس دوران کوئٹہ میں تھے۔ میں دوپہر کے وقت اپنے شہر میں گھوم رہا تھا۔ کہ ایک دوست نے کہا کہ سردار صاحب انتخابات جیت گئے ہیں۔ اب وہ کوئٹہ سے ہمارے شہر کی طرف آنے والے ہیں۔ لوگ سردار کو مبارک باد دینے کیلئے اُس کے سامنے جارہے ہیں۔ چلوہم بھی چلیں گے۔ میں نے دوست سے کہا کہ ہمارے پاس کوئی گاڑی نہیں تو ہم کیسے چل سکتے ہیں۔ اُس نے کہا کہ سارے لوگ جارہے ہیں کسی گاڑی میں بیٹھ کر ہم بھی جائیں گے۔ ہم دوسری گلی میں گئے۔ وہاں بیس کے قریب گاڑیاں اور بہت سے موٹر سائیکلوں کا ایک قافلہ کھڑا تھا کچھ گاڑیوں کے شیشوں پر سردار صاحب کے تصویر یں آویزاں تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں روانہ ہونے والے تھے۔ دوپہر کے بعد قافلہ کوئٹہ کی طرف روانہ ہوگیا۔ میں بھی کسی گاڑی میں سوار ہوگیا۔ تاکہ سردار صاحب کا محصوم سا چہرہ دیکھ سکوں۔ پچاس کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ سردار صاحب پہنچنے والے ہیں۔ پہاڑوں کے دامن میں روڈ کے کنارے گاڑیاں ٹھہر ا دیئے۔ لوگ گاڑیوں سے نکل کر باہر کھڑے ہوگئے۔ ہر ایک کی یہی خواہش تھی کہ وہ سردار صاحب سے گلے ملے اور اُسے مبارک باد دے۔ تھوڑی ہی دیر بعد سردار صاحب کا قافلہ نظر آیا۔ اُس قافلے میں بیس سے پچیس کے قریب گاڑیاں تھیں۔ سردار صاحب گاڑی سے اُترآیا لوگ سردار کی طرف بڑے ہر ایک سردار صاحب سے گلے ملتا اُسے مبارک باد دیتا۔ سردار صاحب کو پھولوں کا ہار پہنایا گیا۔ میں نے بہت کوشش کی کہ سردار صاحب سے ایک بار گلے ملوں اور اُسے مبارک باد دے دوں۔سردار صاحب کا دیدار تو نصیب ہوا مگر رش کی وجہ سے اُس سے گلے نہ مل سکا۔ میں سردار صاحب کا صرف ایک بات سن لیا۔ اُس نے ہاتھ اُوپر اُٹھا کر کہا کہ
”ہمارے حقوق مل گئے ہمارے حقوق مل گئے“
لوگوں نے ”سردار زندہ باد سردار زندہ باد “ کے نعرے لگائے سردار صاحب گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے۔ قافلے میں بیس کے قریب موٹر سائیکل اور 50 کے قریب گاڑیاں شامل تھے۔ لوگ نعرے لگا رہے تھے۔ ”سردار صاحب زندہ باد سردار صاحب زندہ باد“۔تھوڑی دیر بعد شہر پہنچ گئے۔ تو شہر میں لوگ ڈھول بجا کر ناچ رہے تھے مٹھائیاں تقسیم کر رہے تھے۔ کہ سردار صاحب جیت گئے ہیں۔ لوگوں میں اتنی خوشیاں میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا سردار صاحب نے دو (سیٹ) جیت لئے تھے اُسے ایک سیٹ کا انتخاب کرنا تھا۔ اس لیے اُس نے قومی اسمبلی کے سیٹ کو ترجیع دی۔ کچھ دنوں کے بعد سردار صاحب کو اسلام آباد بلایاگیا۔ اُسے ایک لینڈ کروز، پانچ بارڈی گارڈز، دس کے قریب گاڑیاں،بنگلہ،الاؤنس،لاکھوں روپے مراعات، قومی اسمبلی کے رکن کیلئے فنڈز کا ایک خاص کوٹہ اور بہت سے چیزیں دیئے گئے۔ اسلام آباد کا خوبصورت شہر۔ مری کا دلکش نظارہ۔ ہوٹلوں کے رونکیں۔قومی اسمبلی کاخوبصورت ہال۔ فائیو سٹار ہوٹل۔ سفید کپڑے۔ہائی لیول کے لوگ۔ وزرا کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا۔ سردار صاحب نے شاہد پہلے خواب میں بھی اتنے مراعات نہیں دیکھے تھے۔ اتنے مرایات کو دیکھ کر سردار صاحب غریب عوام کو بھول گئے۔۔اب وہ ہر وقت اسلام آباد میں بیٹھا ہوتا تھا۔ لوگ انتظار کر رہے تھے۔ کہ کس وقت سردار صاحب آئیگا۔ تاکہ وہ اپنے مطالبات سردار صاحب تک پہنچا سکیں۔ ایک سال گذرنے کے بعد سردار صاحب کسی کام کے غرض سے ہمارے شہر آیا تھا۔ لوگوں کو اطلاع ملی کہ سردار صاحب ہمارے شہرآئے ہوئے ہیں۔ ہر ایک جلدی جلدی میں درخواست لکھ کر سردار صاحب کو پیش کرنے کیلئے جلدی میں تھا۔ سردار صاحب نے سارے لوگوں کے درخواست اکھٹے کرکے تسلی دی کہ وہ کوئٹہ آئیں اُن کا کام ہوجائے گا۔ اور خودکوئٹہ روانہ ہو گئے۔ جن لوگوں نے درخواست سردار صاحب کو دیئے تھے۔ اور سردار صاحب نے ان سے وعدہ کیا تھا۔ کہ کوئٹہ میں سردار صاحب سے مل کر اپنا کام کروائیں۔ کوئٹہ آنے کی صورت میں اُن کاکام ہوجائے گا۔ لوگوں نے کوئٹہ کا رُخ کیا۔ تاکہ کوئٹہ میں سردار صاحب سے مل کر اپنا کام کروائیں۔کوئٹہ میں سردارصاحب کو ایک بڑا بنگلہ مل گیاتھا۔ اسکے دس بارڈی کارڈتھے۔ اب ہر آدمی سردار صاحب سے نہیں مل سکتا تھا۔ جب بھی کوئی آدمی سردار سے ملاقات کرنے جاتا بارڈی گارڈ اُسے روک کر پہلے تلاشی لیتا۔ پھر ایک رقعہ پر اس کا نام لکھ کر سردار کو بھیجتا۔ سردار صاحب رُقعہ کو دیکھ کر لوگوں کو بلاوایا کرتاتھا۔ جب لوگوں کی ملاقات سردار صاحب سے ہوتے تووہ اُسے اپنے درخواست یاد دلاتے تھے۔ تو سردار صاحب کہتا کہ وہ ضروری کام سے اسلام آباد جار ہے ہیں۔ وہ اسلام آباد آئیں اُن کاکام ایک دن میں ہوجائے گا۔ کچھ لوگ تو قرض کر کے کوئٹہ پہنچے تھے۔ اب اسلام آباد کون جائے گا۔ خیر ایک دو آدمی نے فیصلہ کیا۔ سردار صاحب نے وعدہ کیا ہے۔ وہ ضرور نبھائے گے۔ چلواسلام آباد چلیں گے۔ اگرسردار صاحب ہمیں نوکری دلوایا تو سارے قرضے واپس کریں گے۔ جب کچھ لوگ اسلام آباد پہنچے سردار صاحب سے ملاقات ہوئی۔ تو سردار صاحب نے کہا کہ آپ لیٹ آگئے ہیں۔ میں کل لندن جارہا ہوں آپ لوگ وہاں آجائیں آپ کاکام ہوجائے گا۔ تو لوگوں نے دل میں کہا کہ
”اگر ہمارے پاس لندن جانے کا ٹکٹ ہوتا تو آپ کے پاس کون آتا“
وہ لوگ ایک آہ بھرتے ہوئے نااُمیدی کی صورت میں۔ واپس اپنے شہر لوٹے۔ اُدھر سردار اب لندن اور اسلام آباد کے چکروں میں مصرورف ہو گیا۔ فارسی میں کہتے ہیں
”ندیدم ندیدم دیدم گڑی دم“
پہلے سردار صاحب ایک آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے انتخابی مہم میں حصہ لیا۔ جب اسلام آباد گیا۔ تو دیکھا مسلم لیگوں کا پلڑہ بھاری ہے۔ تو اُس نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی۔ چار سال کے بعد جب اسمبلی کا مدت پوری ہوگئی۔ تو اس وقت بینظیروطن واپس آچکی تھی۔ اور انتخابی سرگرمیوں میں حصہ لے رہی تھی۔ بینظیر خوبصورت تھی۔ نوجوان تھی۔ بھٹو کی بیٹی تھی۔ لندن میں تعلیم حاصل کر چکی تھی۔ لوگ اُسے دیکھ کر دیوانہ ہورہے تھے۔ سردار صاحب نے جب دیکھا کہ اس بار بینظیر کا پلڑہ بھاری ہے۔ تو وہ موقعہ سے فائدہ اُٹھا کر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔اور دوسری بار انتخابی مہم میں ایک علاقہ سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوگیا۔ اب سردار صاحب ہر وقت پیپلز پارٹی کے چیرپرسن بینظیر کے ساتھ اسلام آباد میں بیٹھا ہوتا تھا۔ اب سردار امیر بن چکا تھا۔ کروڑوں روپے کے فنڈوز مل گئے لندن میں اپنے لیے ایک بنگلہ خرید لیا۔ سردار صاحب غریب عوام کو بھول چکا تھا۔ اب وہ ہر وقت اسلام آباد اور لندن کے چکروں میں مصروف تھا۔ اسمبلی کے دوسرا مدت ختم ہونے کے بعد سردار صاحب لندن میں تھا۔ اور اُس کے پاس اتنے پیسے تھے۔ کہ اُس کو تیسرے بار انتخابات میں حصہ لینے کا موقعہ ہی نہیں ملا۔ چوتھے بار جب اسمبلی کا انتخابی مہم شروع ہوا تو سردار صاحب کا بینک بیلنس میں کمی آچکی تھی۔ وہ لندن سے واپس وطن آیا۔ اور انتخابی مہم میں حصہ لیا۔ وہ ہمارے شہر آیا اور اس باروہ کسی کے گھرنہیں گئے۔ بلکہ اعلان ہوا کہ سردار صاحب آج جلسہ عام سے خطاب کریں گے۔ تھوڑی دیر کے بعد سردار صاحب پہنچ گئے۔ لینڈ کروز سے اُتر کر شہر میں مین روڈ سے پیدل جلسہ گاہ کی طرف روانہ ہوا کچھ لوگ سردار کے ساتھ تھے۔ دو بارڈی گارڑ کلاشن ہاتھ میں لیے آگے آگے جارہے تھے۔ میں بھی ایک دُکان کے سامنے کھڑا دیکھ رہا تھا۔ سردار صاحب کسی کو پہچان نہیں رہا تھا۔ مگر ہر ایک کو دیکھ کر سلام کے لئے ہاتھ اوپر کر رہا تھا۔ مگر جواب میں میں نے بہت سے کم ہاتھ دیکھے جو سردار صاحب کے سلام کے جواب میں اوپر اُٹھائے گئے۔ سردار صاحب جلسہ گاہ پہنچ گئے میں بھی گیا تاکہ جلسہ عام کو دیکھ لوں۔ اور سردار صاحب کی باتیں سن لوں۔ اُس نے عوام کیلئے کیا تحفہ لایا ہے۔ بہت سے لوگ دکانوں کے دوسرے منزل کے کریڈور میں کھڑے سردار صاحب کی باتیں سننے کیلئے بے تاب تھے۔ جلسے کا آغاز حسب معمول کلام پاک سے ہوا۔ اُس کے بعد ایک آدمی نے تقریر کی۔لوگ سردار صاحب کے انتظارمیں تھے۔ سردار صاحب کا باری آیا۔ سٹیج پر کھڑا ہوکر تقریر شروع کی۔ ہمارے علاقے کے غیور عوام!پچھلے انتخابات میں میں نے حصہ نہیں لیا۔ آپ نے دیکھ لیا۔ ارکان اسمبلی کتنے کرپٹ تھے۔ اور میرا کار کردگی عوام کے سامنے ہے۔ میں نے جو بھی کیا وہ عوام کیلئے اور جو کروں گا۔ وہ بھی عوام کیلئے کروں گا۔غریب عوام کو میں نے نہیں بھولاہے۔میں نے درجنوں لوگوں کو کام دلوایا۔اسلام آباد کے روڈوں کو شیشے کی طرح بنوایا۔ اس بار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سردار صاحب کے بات جارہی تھی۔ کہ اچانک بار ش شروع ہوئی۔ ویسے تو بارش خدا کی رحمت ہوتی ہے۔ مگر اس بار پانی کی بارش نہیں ہوئی بلکہ ٹماٹر اور انڈوں کی بارش ہوئی۔ کوئی انڈا پھینک رہا تھا۔ تو کوئی ٹماٹر۔ ساتھ ہی ایک ریڑی ٹماٹروں سے لدا ہوا کھڑا تھا۔ اُس کے سارے ٹماٹر پھینک دیئے گئے۔ سردار صاحب کو کچھ ٹماٹر اور انڈے بھی لگے۔ جلسے میں افراتفری پھیل گیا۔ بارڈی گارڈ اور پولیس نے سردار کو لے کر ایک طرف چلے گئے۔ جلسہ ختم ہوا۔ لوگ منتشر ہوگئے۔ سردار صاحب چلے گئے۔ دوسرے دن سردار صاحب اخباروں کے شہ سرخی بن گئے۔ عوام نے سردار صاحب کو ایسی عزت دی۔ جس کی وہ توقع نہیں رکھتے تھے۔ سردار صاحب نے عوام کا یہ خاطر تواضع آج تک نہیں بھولا۔ اور اُس کے بعد سے آج تک میں نے سردار صاحب کو اس علاقے میں انتخابی مہم میں حصہ لیتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اور نہ کبھی سردار صاحب کو اپنے شہر میں چکر لگاتے ہوئے دیکھا۔ اس لئے تو کہتے ہیں کہ
”انسان کو اپنی اوقات نہیں بھولنا چایئے“

مصنف شیکوف بلوچ

اپنے اوقات مت بھولو

No comments:

Post a Comment

apna qimat janay

اپنی قیمت جانیں یہ کہانی اس بارے میں ہے کہ آپ کو اپنی قدرو قیمت جاننا کتنا ضروری ہے۔ آپ کا وقار سونے اور زیور سے زیادہ قی...