Translate and read into your own language

سمندر کے کنارے

Seaside restaurant

سمندر کے کنارے

گرمیوں کا موسم تھا۔موسم بہت خوشگوار تھا۔سمندر خاموش تھا۔کشتیاں سمندر میں تیر رہے تھیں۔پرندے سمندر کے اُوپر اُڑ رہے تھے۔کچھ لوگ سمندر کے کنارے لیٹے ہوئے ایک دوسرے سے بات کر رہے تھے۔کچھ سمندر کے کنارے تیر رہے تھے۔کچھ لوگ سمندر کے کنارے پر کھڑے نظارے دیکھ رہے تھے۔سمندر کے کنارے پر ایک کیفے بھی تھا جہاں لوگ کرسیوں پر بیٹھے آئسکریم کھارہے تھے بہت سے بوتلوں کے مزے لے رہے تھے۔سمندر کے کنارے پر پہاڑ تھے۔پہاڑوں پر مختلف قسم کے درخت اُگے ہوئے تھے۔پہاڑ کے اُوپر ایک بہت بڑا ریسٹورنٹ تھا۔جہاں مختلف قسم کے پروگرام اور محفل ہُواکرتے تھے۔ صیدر اپنے دوستوں کے ساتھ سمندر کے کنارے چہل قدمی کر رہاتھا۔غرضیکہ ہر طرف خوشی کا سماں تھا۔ہر آدمی خوش دکھائی دے رہاتھا۔ایسا لگ رہا تھا کہ یہ جگہ جنت کا ایک ٹکڑا تھا جہاں لوگوں کو کسی چیز کا کوئی غم نہیں تھا۔اچانک تیز ہوا چلنے لگا۔سمندر کی لہریں موجوں میں تبدیل ہونے لگے۔صیدر سمندر کی طرف دیکھ رہاتھا۔جب صیدر کی نظریں سمندر کی موجوں پر پڑی تو وہ موجیں آسمان سے باتیں کر رہے تھے۔صیدر اپنے دوستوں کے ساتھ پہاڑ پر چڑھنے لگا ہر طرف سے لوگ بھاگنے شروع ہوگئے۔سمندر کی موجیں کناروں پر پہنچ گئے۔ہَوا کی تیزی کی وجہ سے ہر چیز اُڑ رہا تھا۔لوگ چیخ و پکار رہے تھے۔ہر ایک مدد کے لئے پکار رہا تھا۔ مگر آج مدد کر نے والاکوئی نہ تھا۔ہر ایک اپنے کو بچانے کے تگ ودو میں تھا۔طوفان کا پانی جب پہاڑ سے ٹکراتا تو ایسا خوفناک آواز پیدا ہوتا جس سے کان پھٹ جاتے۔کشتیاں پہاڑ سے ٹکر کھا کے چُور چُور ہو جاتے تھے۔
سمندر کے کنارے کیفے،دُکانیں،مکانات غرضیکہ ہرچیز پانی میں ڈوب گیا۔صیدر پہاڑ پر چڑ ھنے کے بعداپنے دوستوں کو یاد کیا تو اُس کے دوست اُس سے بچھڑ گئے تھے۔صیدر پہاڑ کے اُوپر ریسٹیورنٹ میں داخل ہو گیا۔جہاں لوگوں کو طوفان کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا۔ میوزک بج رہا تھا۔ ایک آدمی گانا گارہا تھا۔ کچھ لڑکیاں ڈانس کر رہے تھے۔ کچھ لوگ کرسیوں پر بیٹھے بوتل پی رہے تھے۔صیدر کی نظریں ایک حسین لڑکی پر پڑیں جو صیدر کی طرف دیکھ رہاتھا۔صیدر نے جب اُس کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا تو ایسا لگ رہا تھا ک وہ صیدر سے کچھ کہہ رہاتھا کہ صیدر میرے پاس آؤ۔صیدر اُس کی طرف بڑھنے لگا۔صیدر نے تو شاہد دنیا میں بہت سے حسین دیکھے ہوں گے،مگر ایسا حسین وہ پہلی بار دیکھ رہاتھا۔اُس کی نازک سے بدن،اُس کی خوبصورت آنکھیں، اُس کا معصو م سا چہرہ، اُس کی سرخ ہونٹیں،اُس کی لمبے لمبے بال،اُس کی ادائیں صید ر اُس کی محبت میں ایسا گم ہو ا کہ طوفان کو بھی بھول گیا۔ایک طرف طوفان تباہی مچارہاتھا لوگ زندگی کی بچانے کے تگ ودو میں تھے۔مگر صیدر کسی حسین کی محبت میں گرفتار ہو کر ہر چیز کو بھول چکا تھا۔ایک طرف سے طوفان کی لہریں ریسٹیورنٹ کے دیواروں سے ٹکر اکر پانی اندر کی طرف آرہاتھا دوسری طرف سے صیدر اپنے محبوب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑا دیکھ رہا تھا ۔ طوفان نے ایسی تباہی مچادی کہ ہزاروں مکانات پانی میں بہہ گئے اور ہزاروں لوگ پانی میں ڈوب گئے۔پہلے تو صرف ایک طرف سمندر تھا۔اب چارو ں طرف پانی ہی پانی دکھائی دے رہا تھا۔صیدر حسین کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اپنے ہونٹوں کو تھوڑا سا ہلا رہا تھا۔ایسا لگ رہا تھا کہ صیدر حسین لڑکی سے کچھ کہنا چاہتا تھا۔میں تمھیں سارا زندگی ڈھونڈ رہا تھا۔صیدر حسین کو اپنے باہوں میں لے کر اُس کے ہونٹوں ہ اپنے ہونٹ رکھ کراپنے آنکھیں بند کر لیا۔ اور اس ھسین کی محبت میں گرفتار ہو کر طوفان کو بھی بھول گیا۔ جب صیدر نے اپنے آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ اُس کے چاروں طرف پانی ہی پانی تھا۔ کسی ایک آدمی کا بھی نام و نشان نہ تھا۔

مصنف: شیکوف
Seaside restaurant, a dream to leave at seaside restaurant. Urdu article written by Shaikof.

Seaside restaurant

No comments:

Post a Comment

apna qimat janay

اپنی قیمت جانیں یہ کہانی اس بارے میں ہے کہ آپ کو اپنی قدرو قیمت جاننا کتنا ضروری ہے۔ آپ کا وقار سونے اور زیور سے زیادہ قی...