Translate and read into your own language

چو ر اکیلا نہیں ہوتا

چور نورو

چو ر اکیلا نہیں ہوتا
کہتے ہیں کہ چور نورا (حرف نورو) جب بوڑھا ہو گیا تو وہ اپنی قصے اور کارکردگی یعنی چوری کرنے کے واردات خود لوگوں کو سنایا کیا کرتاتھا۔
نورو کہتا ہے کہ ایک دن وہ اپنی کلی میں مولاداد کے دوکان کے سامنے سے گزر رہا تھا کہ اُسکی نظریں دُکان میں بیٹھے مولاداد پر پڑے جو اپنے دُکان کے کمائے ہوئے پیسے گن رہا تھا۔ تو اُس نے دو چار قدم پیچھے اُٹھایا اور ایک کونے پہ کھڑا ہو کر انتظار کرنے لگا کہ مولاداد پیسے کہاں چھپا لیتا ہے۔ مولاداد پیسے گننے کے بعد پیسوں کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر دُکان میں اُوپر کسی ایک کونے میں چھپا دیا۔ اور دُکان کو تالا لگا کر گھر چلا گیا۔ چورنورو نے جب دیکھا کہ مولاداد چلاگیا تو وہ دکان کے قریب آیا اور ادھر اُدھر غور سے دیکھا کہ آس پاس تو کوئی اسے دیکھ تو نہیں رہا۔ جب اسے تسلی ہوگیا کہ کوئی نہیں ہے تو اس نے دکان کے تالے کو تھوڑکر دکان کے اندر داخل ہوگیا۔ اور اسے پہلے سے پتہ تھا کہ پیسے کہاں پہ چھپائے ہوئے ہیں۔ اس نے آسانی سے پیسے اُٹھا کر دُکان سے نکل گیا۔
تھوڑا دور جاکر چورنورو سوچنے لگا پیسے تو میں نے چرا لیئے ہیں مگر کل مولاداد پولیس میں رپورٹ درج کرے گا۔ تو مجھے گرفتار کرلیاجائے گا۔
ٓاُس وقت کلی (حلقے) کا سربراہ سلطان خان ہوا کرتا تھا۔ چورنورو سیدھا سلطان خان کے پاس چلا گیا۔ اور اس نے سلطان خان کو سارا ماجرہ سنایا کہ اس نے مولاداد کے دکان سے پیسے چرا لیئے ہیں۔ اب کیا کرے۔ سلطان خان نے چورنورو کے باتوں کو غور سے سُنا پھر کہا۔
میرا حصہ دے دو کسی کا باپ بھی تمھیں گرفتار نہیں کرے گا۔ چورنورو کچھ پیسے سلطان خان کو دے دیئے۔ سلطان خان پیسے اُٹھا کر اپنے جیب میں رکھ لیا اور پھر کہا اب جاکر تھانے دار کو میرا سلام دینا اور اس کا حصہ بھی دے دو۔ چور نورو سیدھا تھانے دار کے پاس چلا گیا۔ تھانے دار اچھا خاصہ صحت مند تھا اور اس کے بڑے بڑے مونچے بھی تھے۔ چورنورو پہلی بار تھانیدار سے ملنے گیا تھا اس لیئے تھانیدار چورنورو کو نہیں پہچانا۔
چوررنورو نے کہا کہ میں سلطان خان کا سلام آپ کے پاس لایا ہوں۔ تھانیدار نے کہا ضرور خوشخبری لائے ہو۔ چورنورو نے کہا کہ آج میں نے مولاداد کے دکان سے پیسے چرایا ہے۔ تھانے دار نے کہا ٹھیک ہے میرا حصہ دے دو۔ باقی مسئلہ سنھبالنا میرا کام ہے۔ چور نورو کچھ پیسے تھانیدار کو دیئے اور واپس آرام سے گھر چلا گیا۔
دوسرے دن مولاداد جب دکان گیا تو اپنے پیسوں کو ڈھونڈا مگر پیسے وہاں موجود نہیں تھے۔ مولاداد بہت پریشان ہوگیا کیونکہ اس کی ساری زندگی کاکمائے ہوئے پیسے یہی تھے۔ جو چرائے گئے تھے۔ مولاداد سیدھا ملک محمد (پدبین)کے پاس چلا گیا جو پاؤں کے نشان سے لوگوں کو پہچانتاتھا۔ جسے پدبین کہتے ہیں۔ ملک محمد دکان کے اردگرد پاؤں کے نشانات کو چیک کیا تو اس نے بتایا کہ یہ پاؤں کے نشانات چورنورو کے ہیں اور اس نے پیسے چراء لیئے ہیں۔
مولاداد سیدھا تھانہ چلا گیا اور چور نورو کے خلاف رپورٹ درج کرایا کہ چورنورو نے اس کے دکان سے پیسے چراء لیئے ہیں۔ رپورٹ(ایف آئی آر) درج ہونے کے بعد تھانیدار نے حکم دیا کی چور نورو کو پکڑا جائے۔ دوسرے دن چور نورو کو گرفتار کرلیا گیا۔ مگر معاملہ پہلے سے طے ہو چکا تھا۔ چورنورو کو پکڑنا تھانیدار کے لیئے صرف ایک بہانہ تھا تاکہ وہ یہ باور کرائے کہ وہ مولاداد کے رپورٹ پر عمل ہورہاہے۔
مگر چورنورو نے صاف انکار کیا کہ اس نے یہ پیسے چراء لیئے ہیں۔ اس لیئے دوسرے دن تھانے دار نے حکم دیا کہ اگر چور نورو نے پیسے نہیں چراء لیئے تو مولاداد کے بیٹے نے چراء لیاہوگا۔ اس لیئے مولاداد کے بیٹے کو گرفتار کیا جائے۔ تیسرے دن پولیس نے مولاداد کے گھر چھاپا مار کر مولاداد کے بیٹے کو گرفتار کرلیا۔
مولاداد کو جب پتہ چلا کہ پولیس نے اس کے بیٹے کو گرفتارکرلیاہے اور اس پر الزام عائد کیا ہے کہ اسی نے پیسے چراء لیئے ہیں۔ تو مولاداد بہت پریشان ہوگیا۔ اور سیدھا اپنے حلقے(کلی) کے سربراہ سلطان خان کے پاس چلا گیا۔ اور سلطان خان سے کہا کہ اس کے بیٹے کو جیل سے نکال دیا جائے۔ سردار نے کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ آپ کے بیٹے کو گرفتار کرلیاگیا ہے۔ میں کوشش کروں گا کہ آپ کے بیٹے کو رہا کروادوں۔ ہاں آپ کو ایک کام کرنا پڑے گا۔ آپ کو اپنا بیٹا چاہیے یا پیسے؟
مولاداد سوچ میں پڑ گیا کہ پیسے تو چلے گئے اب بیٹا بھی جانے والا ہے۔ اس لیئے اس نے سلطان خان کے باتیں مان لیئے اور اپنے بیٹے کو رہا کرنے کے خاطر رپورٹ (ایف آئی ار) واپس اُٹھانے کے لیئے تیار ہوگیا۔ چوتھے دن مولاداد سلطان خان کے ساتھ تھانہ گیا۔ مولاداد نے راضی نامہ کرکے رپورٹ واپس اُٹھایا۔ اور تھانیدار نے مولاداد کے بیٹے کو رہا کردیا۔ چورنورو آزاد گھوم رہا تھا کسی کا کیا مجال کہ اس کے خلاف ایف آئی آر کاٹ لیتا۔ ایک دن پیرجان کوئٹہ سے ایک نیا سائیکل خرید کر لایا تھا۔ اور کلی کی قریب پہنچ کر سائیکل کو کھڑا کیا اور پیشاب کرنے بیٹا۔ چورنورو ادھر سے گزر رہا تھا کہ اس کی نظریں پیر جان کے نیا سائیکل پر پڑے اور پیر جان پیشاب پر بیٹا ہوا تھا۔ چورنورو موقع سے فائدہ اُٹھا کر سائیکل پر سوار ہو کر پیڈل مارتا ہوا چل پڑا۔
پیرجان جب پیشاب سے فارغ ہوا تو موڑ کر دیکھا سائیکل غائب تھا۔ سائیکل چوری ہوگیا تھا۔ پیر جان ملک محمد پدبین کو لایا۔ ملک محمد نے جب پاؤں کے نشانات چیک کیے تو بتایا کہ یہ چور نورو کے پاؤں کے نشانات ہیں۔
پیر جان تھانہ جاکر چورنورو کے خلاف رپورٹ درج کیا کہ اس نے پیر جان کے نیا سائیکل چراء لیا ہے۔
چورنورو سائیکل چوری کرنے کے بعد پیڈل مارتا ہوا کوئٹہ گیا تھا اور اس نے سائیکل کوئٹہ میں فروخت کیا تھا۔ اور دو دن کے بعد واپس آیا تھا اور آنے کے بعد اس نے سلطان خان اور تھانے دار کا پیسوں کا حصہ دے دیا تھا۔
جب چورنورو کے خلاف رپورٹ درج ہوا تھا تو تھانیدار نے چورنورو کو گرفتا ر کرلیا۔ اور پوچھ گچھ کے بعد نورو نے بتایا کہ وہ ا ن دنوں کوئٹہ میں تھا اور آج وہ کوئٹہ سے واپس آیا ہے اس لیئے اسے سائیکل کے بارے میں علم نہیں۔
تھانیدار نے حکم دیا کہ ملک محمد پدبین کو گرفتار کیا جائے جو خود چوری کرلیتا ہے اور الزام چورنورو پر ڈالتا ہے۔ ملک محمد پدبین کو گرفتار کرلیا گیا۔
ملک دین محمد پدبین پریشان ہو گیا کہ کس طرح اپنے آپ کو رہا کروایا جائے۔ ملک دین محمد کا بھائی کریم بخش سلطان خان سے ملنے گیا اور سلطان خان کو ملک دین محمد کے رہائی کے بارے میں بتایا۔ سلطان خان نے کہا ٹھیک ہے وہ تھانے دار سے بات کرے گا۔ آخر کار ملک دین محمد سے کچھ پیسے لے کر اور معاہدہ کیا گیا کہ وہ آئندہ چور نورو کا نام نہیں لے گا۔ ملک دین محمد نے مان لیا اور رہا ہو گیا۔
چور نورو کے کہنے کے مطابق اس کے بعد وہ جدھر بھی چوری کرتا اسے کوئی نہیں پکڑ سکتا۔ جس کی وجہ سے چورنورو بہت مشہور ہو گیا اور اسے آج بھی چور نورو کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
مرال:
چوری اس وقت تک ختم نہیں ہوگا جب تک چور کے ساتھ ساتھ وہ دو طاقتوں کو ختم نہ کیا جائے جو چور کے ساتھ ملے ہوئے ہوتے ہیں۔ اور اس کی پشت پنائی کر تے ہیں۔
مصنف شیکوف بلوچ

Chor Nouro

No comments:

Post a Comment

apna qimat janay

اپنی قیمت جانیں یہ کہانی اس بارے میں ہے کہ آپ کو اپنی قدرو قیمت جاننا کتنا ضروری ہے۔ آپ کا وقار سونے اور زیور سے زیادہ قی...