Translate and read into your own language

ہر بچہ سکول میں

ہر بچہ سکول میں



ٰ آج مجھے بڑی خوشی محسوس ہو رہی ہے۔ کہ ہم نے تعلیم جیسے عظیم نعمت کی فروغ کے لیے ایک بہتر اور اہم موضوع(ہر بچہ سکول میں یا بچوں کو سکولز میں داخل کرایا جائے) کو چھیڑاجا رہا ہے۔ حالانکہ اس موضوع پر پہلے ہی بات ہونا چائیے تھا۔ چلو ٹھیک ہے۔ ”دیر آید درست آید“ اب ہمیں آگے۔بڑھنا ہوگا۔ اور اپنے مستقبل کے معماروں کے متعلق سوچنا ہوگا کیونکہ بغیر ان کے ہمارا زندگی نامکمل ہے جیسا کہ ممتازفلاسفر ویل ڈیورینٹ نے کیا خوب کہا ہے۔
”نئی نسل ہمارے مستقبل،ہماری خون اور ہماری زندگی ہوتے ہیں“
لیکن افسوس سے کہنا پڑتاہے۔ کہ ہم ان کی طرف توجہ تو کجا بلکہ انھیں مکمل
ignore
کر چکے ہیں۔ ایک طرف سے ہم مہم چلا رہے ہیں بڑے بڑے بینرز آویزاں کیے جارہے ہیں دیواروں پر چاکنگ کیا جارہا ہے اور بڑے بڑے دعوے ہو رہے ہیں کہ بچوں کو سکولز میں داخل کرایاجائے مگر دوسری طرف ہم نے بالکل توجہ دینے کی کوشش نہیں کی کہ سکولز کی حالت کیسی ہیں۔ جس سکول
میں ہم بچوں کو داخل کروانا چاہتے ہیں۔ یا والدین سے کہتے ہیں۔ کہ اپنے بچوں کو سکولوں میں داخل کریں۔
کیا ان سکولز میں بچوں کو پڑھانے اور سکھانے والے قابل اُستادوں کا وجود ہے؟
کیا ان سکولوں میں بچوں کے ساتھ محبت اور شفقت سے پیش آنے والا کسی انسان کا وجود ہے؟
کیا ان سکولوں میں بچوں کو ان کا اصل مقصد دکھانے والا بھی کوئی ہے؟
کیا ان سکولوں میں بچوں کی ذہن سازی ہوتی ہے؟

کیا یہ سکولز بچوں کے مستقبل کے ضامن ہیں؟
کیا ان سکولوں سے بچوں کی زندگی بنتی ہے؟ کیا ان سکولوں سے بچے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو رہے ہیں؟
کیا ان سکولوں سے بچے اپنے مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں؟
کیا جس مقصد کے خاطر ایک ماں اپنی بچے کو سکول روانہ کرتی ہے اس ماں کے دل کے ارمان پورے ہوتے ہیں؟ کیاان سکولوں میں بچوں کے نفسیات کو سمجھنے والا کوئی اُستاد وجود رکھتا ہے؟
کیا ہمارے ہاں ایسے آفیسر کا وجود ہے جو سکول جاکر محبت، شفقت اور پیار کا ہاتھ طلباء کے سر پر پھیردیں؟
اور بہت سے ایسے سوالات ہیں جو جوابات کے منتظر ہیں۔اب ہمیں سوچ کر قدم اُٹھا نا چایئے۔ کیونکہ حقیقت اور سچائی بہت تلخ ہوتی ہے۔ مگر مضبوط اور پائیدار ہوتی ہے۔ ہمارے مستقبل کے بھاگ ڈور کو سنبھالنے والے یہی جو ان سال ہیں۔ ان کے مسقتبل کے بارے میں ہر ایک کو سوچنا چایئے اور انھیں سکولوں میں داخل کرانا چایئے۔ تعلیم نہ صرف بچے کا بنیادی حق ہے۔ بلکہ یہ ہمارا فرض ہے۔ کہ ہم اپنے قوم کے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں۔ کیونکہ ان کی کامیابی ہماری کامیابی ہے۔ اوران کی ناکامی ہماری ناکامی ہے۔ ان کا مستقبل حقیقت میں ہمارا مستقبل ہے اب یہ ہر فیلڈ کے لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے۔ کہ خواہ اس کا تعلق کسی بھی پیشے سے ہو۔ بھر پور انداز سے اس جانب ہوش و حواس کے ساتھ راغب ہو جائے اور بچوں کو داخلہ دلانے کے ساتھ ساتھ سکول کے نظم ونسق پر چیک اینڈ بیلنس رکھیں۔ آج دُنیا میں سب سے بڑا اور اولین جنگ تعلیم ہی کی ہے۔ ہر قوم دوسرے پر حاوی ہونے کیلئے زیادہ سے زیادہ اور اچھے سے اچھا تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ دُنیا کے سارے راز تعلیم ہی میں پوشیدہ ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں لوگ اپنے تمام کاموں سے پہلے اولیت و ترجیعی ایجوکیشن کو دیتے ہیں۔ جن کی کارن سے آج ان ترقی یافتہ قوموں کی چہ مگوئیاں پورے دُنیا میں ہو رہی ہے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ آج کے دور میں ایجوکیشن کے بغیر انسان نامکمل ہے۔ اور اس کی مانندجانور کی سی ہے۔ اور ان دونوں کے درمیان صرف اور صرف ایجوکیشن فرق واضع کرتا ہے۔ ایجوکیشن ہی کی بدولت آج انسان نے مریغ تک رسائی حاصل کر لی ہے۔ اگر ایجوکیشن کو ہم ایجوکیشن جان کر آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔ تو دُنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے صف و قطار میں بآسانی سے کھڑے ہو سکتے ہیں۔ مگر”ایمانداری اور مخلصی کے ساتھ“ اس وقت صرف نوشکی نہیں بلکہ پورے بلوچستان میں تعلیم کی زبوں حالی کی صورت سے ہر ایک بخوبی آگاہ ہے۔ کم از کم ہر ایک ٹیچر کو ذمہ دار ہونے کیساتھ ذمہ داری سے بچوں کو پڑھائی کی جانب توجہ دینا چائیے۔ اور بغیر رنگ و نسل و تعصب کے سال کے شروع میں تمام بچوں کیلئے ایڈمیشن اوپن ہونا چائیے۔ او ر انھیں بروقت اس کی تعلیمی ذوق کے مطابق ایڈمیشن دینا چائیے۔ اور ان کے سامنے رکاوٹیں کھڑا کرنے کی بجائے راستے کو ہموار کرنے کی کوشش کریں۔ تاکہ نوجوان تعلیم جیسے عظیم پاور کی عظمت سے واقف ہو کر ان میں مزید تعلیمی دلچسپی جنم لیں۔
اصل میں نئی نسل کی جانب توجہ دینا ایسا ہے۔ جیسا کہ ہم اپنے آپ پر توجہ دے رہے ہیں۔ بلکہ اپنے آپ کو بنا پا رہے ہیں جب ہمارے نوجوان تعلیم میں محو رہیں گے۔ تو ہماری قوم و سماج میں خود بخود ڈیولپمنٹ و مرغزاری برپا ہوگی۔ اور قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ قوم عملی اقدامات کا منتظر ہے۔ قوم کے بچے تعلیم کے راہ دیکھ رہے ہیں۔ اور نوجوان نسل انقلاب کے انتظار میں ہیں۔ اب یہ اہم نہیں کہ ہماری تعلیم کتنی ہے۔ بلکہ اہم یہ ہے۔ کہ ہم اس کا کیا استعمال کریں گے۔ اب ہمیں ہمت سے کام لینا ہوگا۔ سب سے پہلے اپنے آپ سے ایماندار ہونا ہوگا۔ جس وقت ہم اپنے آپ سے ایماندار ہوں گے۔ تو مجھے یقین ہے کہ ہم اپنے قوم کیساتھ بھی ایماندار ہوں گے۔ اور ان کو تعلیم دلانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ اب ہمیں اپنی مہم کو تیز کرنا ہوگا۔ انقلاب لانا ہوگا۔ قوم کے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہوگا۔ ترقی یافتہ قوموں کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہوگا۔ آپ بھی یہی چاہتے ہیں۔ میں بھی یہی چاہتا ہوں۔قوم بھی اسی دن کے انتظار میں ہے۔ ساری دُنیا کی بھی یہی تمنا ہے۔ خلیل جبران بھی یہی کہتا ہے۔
”اچھی طرح آنکھیں کھول کر دیکھ:
تجھے ہر صورت میں اپنی صورت نظر آئے گی۔
اور اچھی طرح کان کھول کر سن:
تجھے ہر آواز میں اپنی آواز سنائی دے گی۔“
مصنف شیکوف بلوچ
(تاریخ 1-10-2010 )

ہر بچہ سکول میں

No comments:

Post a Comment

apna qimat janay

اپنی قیمت جانیں یہ کہانی اس بارے میں ہے کہ آپ کو اپنی قدرو قیمت جاننا کتنا ضروری ہے۔ آپ کا وقار سونے اور زیور سے زیادہ قی...