Translate and read into your own language

میرا قصور

میرا قصور

جب میں پہلی بار وجو دمیں آیاتو مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں تھی۔ نہ کھانے کی ضرورت تھی نہ پینے کی اور نہ کپڑے کی نہ میں کسی کو جانتا تھا نہ کوئی مجھے جانتا۔ میں ایک ایسے سمندرمیں رہ رہا تھا جہاں تنہائی ہی تنہائی تھی میں وہاں خوش تھا۔ دن گذرتے گئے میں بڑا ہوتا گیا۔ ایک دن ایسا آیا۔ سمندر میں میرا وقت پورا ہوگیا۔ اور مجھے سمندر سے نکلنا پڑا۔ پہلی بار سمندر سے باہر کی دُنیا میں قدم رکھاتو مجھے ایک خوفناک شور سنائی دی۔ میں نے پہلی بار لوگوں کو دیکھا لوگ کپڑے پہنے ہوئے تھے۔اور میں ننگا تھا۔ لوگ مجھے دیکھ کر ہنس رہے تھے۔ میں ایک عجیب سی کیفیت میں مبتلا تھا۔
کہ میں سمند ر سے نکل کر ایک کمرے میں بند ہوگیا۔ جب پہلی بار سمندرسے میں نے سر نکالا تو اُس وقت میراسر بہت نازک تھا۔ توایک عورت نے میرا سر پکڑ لیا۔ مجھے ایسالگا کہ میرا سر بدن سے جدا ہوگیا۔ یہ میرے برداشت سے باہر تھا۔ میں ایک چیخ مار کر رونے لگا۔ کہ مجھے یہ دُنیا نہیں چائیے۔ وہی سمندر میرے لیے اچھا ہے۔ جہاں تنہائی ہے۔ جہاں امن ہے۔ جہاں کوئی چیخ وپکار نہیں۔ مگر میں کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ کیونکہ سمندر میں میرا وقت پورا ہوگیاتھا۔ اس لیے مجھے وہاں سے نکلنا پڑا بوڑھی عورت میرا سر پکڑ کر کھینچ رہا تھا۔ اور میں رو رہا تھا۔ آہستہ آہستہ اُس نے مجھے سمندر سے نکال دیا۔ ایک عورت نے قینچی اُٹھاکر میرا ناف کاٹ دیا۔ دوسرے عورت مجھے غور سے دیکھ رہی تھی۔ اور ہنس کر بولا۔ ارے یہ تولڑکی ہے۔ مجھے ایک ماں اور ایک باپ بھی نصیب ہوگئی۔ میرے والدین میرے پیدائش سے ناخوش تھے۔ کیونکہ وہ لوگ ایک بیٹے کے انتظار میں تھے۔ مگر اُنھیں میں ملی۔ اور میں ایک لڑکی تھی۔ میرا نام رضیہ رکھ دیا گیا۔ مگر میرا والدین مجھ سے محبت نہیں کرتے تھے۔ نہ وہ میری خیال رکھتے۔ نہ میرے لیے اچھی چیزیں خریدتے تھے۔ میں معاشرے کے رحم وکرم پہ پھلتی پُھولتی رہی۔ پانچ سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے میرے والدین کو ایک بیٹا تحفے میں دیا۔ وہ بیٹے کو دیکھ کر بہت خوش ہوگئے۔ جو میرا بھائی کہلانے لگا۔ وہ میرے بھائی سے محبت میں اتنے محو تھے۔ کہ مجھے بالکل بھول گئے۔ میں ہروقت رویا کرتی تھی۔ وہ میری چیخ وپکار کی طرف بالکل توجہ نہیں دیتے۔ اور وہ مجھے بہت مارتے پیٹتے تھے۔ جب میں سات برس کی ہوئی تو میری والد نے مجھے ایک ہاسٹل میں چھوڑ کر چلا گیا۔ یہ ہاسٹل لاوارث بچوں کیلئے بنایا گیا تھا۔ اور آج میں بھی لاوارث ہو گئی۔
میں چیخ اور چلا کر رو روکر اپنے والد کو پکار رہی تھی۔Papa I Love U..ابا جان میں تم سے بہت پیار کرتی ہوں۔ مجھے مت چھوڑ۔ میں تمھارے ساتھ آنا چاہتی ہوں۔ کیونکہ میں تمھارا خون ہوں۔ نہ مجھے اچھے کپڑے اور نہ اچھے جوتے۔ نہ مجھے کھلونے چائیے۔ اور نہ کوئی۔ میٹھائی۔بس اباجان مجھے صرف تمھارا پیا رچائیے۔۔۔۔۔۔
مجھ یہاں مت چھوڑ کیونکہ تمھارے بنا میں یہاں نہیں رہ سکتی۔ مجھے تمھاری ضروت ہے۔ کیونکہ میں تم سے محبت کرتی ہوں۔ اور میں تمھارا ہی بیٹی ہوں۔
پاپا کیوں سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ کیوں میری باتیں نہیں سنتے تم کیوں مجھ سے دلچسپی نہیں لیتے۔ کیوں تم مجھے اکیلے چھوڑ کر جارہے ہو۔ آخر کار میری گناہ کیا ہے۔
مگر اُس نے میری کچھ نہ سنی اور مجھے چھوڑ کر چلا گیا۔ میں بہت رہ رہی تھی۔ چیخ رہی تھی۔ مدد مانگ رہی تھی۔ مگر اُس وقت ہاسٹل میں کام کرنے ولے ایک آدمی نے میری ہاتھ پکڑ کر مجھے ایک کمرے میں لے گیا۔ اور کہا کہ یہ تمھاری جگہ ہے اور وہ باہر نکل گیا۔ میری مدد کرنے والا کوئی نہ تھا۔ بہت دن گذر گئے۔ میری والدین مجھے ملنے نہیں آئے۔ اورہر مہینہ میرے لیے پیسے بھیجتے۔ مگر وہ یہ سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے کہ مجھے پیسوں کی نہیں بلکہ والدین کی پیارمحبت کی ضرورت ہے۔ مجھے ہروقت یاد آتیں ہیں۔
پورا تیرہ(13) سال گذر گئے۔ مگر میری والدین مجھے ملنے نہیں آئے۔ میں اُس وقت کی انتظار کر رہی ہوں۔ جس وقت میری والدین مجھ سے ملنے آئیں گے۔ اور میں اُن سے پوچھ لوں گی۔ کہ میرا قصور کیا تھی۔
کیا میری قصور یہ تھی۔ کہ میں آپ کے گھر میں پیدا ہوگئی؟
کیا میری قصور یہ تھی۔ کہ میں ایک عورت ذات لڑکی ہوں؟
کیا میری قصور یہ تھی۔ کہ میں آپ لوگوں سے محبت کرنے لگی؟
کیا میری قصور یہ تھی۔ کہ آپ سے کچھ مانگنے کی خواہش نہیں کرتی؟
کیا میری قصور یہ تھی۔ کہ مجھے آپ لوگوں کی پیار ومحبت کی ضرورت تھی؟
کیا میری قصور یہ تھی کہ میں آپ کے جائیداد کاوارث نہیں بن سکتی تھی؟ آخر کار وہ کون سی وجوہات تھی۔ جن کی وجہ سے آپ لوگ مجھے لاوارث چھوڑ کر چلے گئے۔ اور آج تک مجھ سے نہیں ملے۔ اب میں بالغ ہوچکی ہوں۔ سوچ رہی ہوں۔ کہ کس وقت میری بارات آئے گی۔ کس وقت مجھے ڈولی میں بٹھالیا جائے گا۔ کس وقت میری والدین اپنی محبت کا ہاتھ میرے سر پر پھیر کر مجھے نیک دُعا دیں گے۔ کس وقت میں اپنی نئی گھر چلی جاؤں گی۔
پاپا!امّا! بیس سال سے میں آپ لوگوں کا منتظر ہوں۔ مہربانی کرکے ایک بار مجھے صرف یہ کہہ دیں۔ کہ میری قصور کیا ہے۔ اور مجھے معاف کرکے اپنے ہاتھ میرے سر پر پھیر دیں۔ میں ساری زندگی آپ لوگوں کی خدمت کرتی جاؤں گی۔۔۔۔۔
مصنف شیکوف بلوچ

میرا قصور

No comments:

Post a Comment

apna qimat janay

اپنی قیمت جانیں یہ کہانی اس بارے میں ہے کہ آپ کو اپنی قدرو قیمت جاننا کتنا ضروری ہے۔ آپ کا وقار سونے اور زیور سے زیادہ قی...