Translate and read into your own language

ذہنی غلامی

Mental Slavery

ذہنی غلامی

غلامی ایک ایسا نظام ہے جس کے ذریعے سے لوگ خرید اور فروخت ہوتے ہیں۔ اور ان سے زبردستی کام لیا جاتا ہے۔ اور ان پر ان کے مالک کا مکمل حق اور کنٹرول ہوتا ہے۔ اور اکثر غلاموں کو ان کے کام کا کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتاہے۔
ویسے تو غلاموں کے بہت سے قسمیں ہوتے ہیں۔
ٖForced Slavery :
ایسے آدمی جن کو زبردستی غلام بنایا جاتا ہے۔ اور ان کا مالک ان سے اپنے منشاء سے کام لیتا ہے
ؓBonded Slavery or Debt Slavery:
ایسے لوگوں کو اپنا قرضہ اُتاروانے کیلئے غلام بنایا جاتا ہے
Child Slavery:
ایسے بچے جن کو زبردستی غلام بنا کر اُن سے کام لیا جاتا ہے۔
Sex Slavery:
ایسے عورت یا مر د جن سے زبرستی اُن کے منشاء کے بغیر سیکس کا کام لیا جاتا ہے۔
Domestic Servited Slavery :
ایسے لوگ جن کو فراڈ یعنی دھوکہ دے کر یرغمال بنایا جاتا ہے۔بعد میں ان سے زبردستی کام لیا جاتا ہے۔
Chattle Slavery:
ایسے لوگ جن کو ان کا مالک اپنا اثاثہ
(personal property)
سمجھتا ہے۔ جس طرح کا سلوک مالک چاہے ان سے کرواہ سکتا ہے۔
Forced Marriag Slavery :
ایسی عورت جس سے اُس کے منشاء کے بغیر شادی کیا جاتا ہے۔
غلامی کی قسمیں شاید اور بھی ہو سکتے ہیں۔ اور ان میں سے ایک ذہنی غلامی بھی ہے۔
ذہنی غلامی میں لوگ جسمانی حوالے سے آزاد ہوتے ہیں وہ اپنے منشاء سے کسی جگہ بھی جا سکتے ہیں۔وہ نہ کسی کا اثاثہ اور نہ کسی کا قرض دار ہوتے ہیں۔ وہ جوکام چائے کرے اس کا معاوضہ اسے ملتا ہے۔مگر ذ ہنی حوالے سے وہ غلامی کے زنجیروں میں جھکڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ اور ان سے ان کا تخلیقی صلاحیت اور سوچنے کی قوت کوچھینا جاتا ہے۔اور وہ سوچنے اور اپنے تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ اور وہ ہر چیز جاننے کے باوجود کچھ کرنے کے اہل نہیں ہوتے۔ بلکہ وہ ہر وقت یہ سوچتے ہیں اگر میں یہ کام کروں تو لوگ کیا کہیں گے؟ اگر میں یہ کپڑے پہنوں تو لوگ کیا سوچیں گے؟ وہ ہر وقت ایک خوف میں مبتلاہوتے ہیں یعنی اس کا اُٹھنا بیٹھنا اور جینا ارد گرد کے ماحول پر منحصر ہوتاہے۔وہ اپنی آزادی سے کچھ نہیں کرسکتا۔(جو ذہنی غلامی کی ایک اہم نشانی ہے)
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ جس ماحول میں رہتا ہے اس ماحول کے دائرہ سے باہر وہ کچھ کر نے کے اپنے کو اہل نہیں سمجھتا، جس طرح ماحول کہے گا وہ اسی طرح کرے گا۔برٹنڈر رسل کہتا ہے۔ ”انسان جب کسی معاشرہ میں عادت کرتا ہے تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ معاشرہ دنیا کی باقی ساری معاشروں سے اچھا ہے“
اور اس کا ذہن ہر وقت حکم کے انتظار میں ہوتا ہے۔ اور حکم کے تابع ہوتاہے۔ جب بھی ان کے آقا کی طرف سے کوئی حکم آتا ہے تو وہ ایسا رویہ ادا کرتا ہے۔ جیسا کہ ایک سپائی اپنے کمانڈر کا حکم مانتا ہے۔ اگر کمانڈر کئے
Left
تو سپائی بائیں طرف مڑتے ہیں اور اگر کئے
Right
تو سپائی دائیں طرف مڑتے ہیں۔سپائی کمانڈر کے حکم کے بغیر کوئی قدم نہیں اُٹھاسکتے۔
ہیرک فام کہتا ہے
ؔ"The danger of the past was that men became slaves. The danger of the future is that men may become robots"
ہمارے اُوپر ذہنی غلامی کے اثرات بچپن سے شروع ہوتے ہیں۔
بچپن میں بچہ ذہنی والے سے کسی کاغلام نہیں ہوتا۔ جب ایک بچہ اپنے گھر سے نکل کر دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے لگتا ہے تو وہ مخٹلف قسم کے کھلونے خودتخلیق کرتا ہے۔اور ان کھلونوں کے ساتھ کھیلتا رہتا ہے۔خاص کر بارش کے موسم میں جب بچے ریتوں سے کھیلتے ہیں تو وہ مختلف قسم کے چھوٹے چھوٹے مکان ریتوں سے بناتے ہیں۔ اور ان مکانوں میں اپنے ہاتھوں کے بنائے ہوئے کھلونے رکھ کے ان سے کھیلتے رہتے ہیں۔ اور اگر کوئی ان بچوں کی کارکاردگی دیکھے تو حیران رہ جاتا ہے کہ ان بچوں کی ذہنی صلاحیت کتنا اچھا ہے اور سوچنے لگتا ہے کہ یہ بچے بڑے ہو کر بڑے بڑے انجینئر،فلاسفر، تخلیق کا ر وغیر ہ بنتے ہیں۔
کھیل ختم ہونے کے بعدجب بچے واپس گھر لوٹتے ہیں تو وہ گھر میں کچھ تخلیق نہیں کر سکتے جس چیز پر بچے ہاتھ رکھتے ہیں تو دوسری طرف سے والدین کا حکم آتا ہے کہ ہاتھ مت لگاؤ خراب ہو جائے گا۔ تو بچہ اُس چیز کو چھوڑ کر دوسری چیز کو ہاتھ لگا نے کی کوشش کر تا ہے۔ مگر پھر والدین کا حکم آتا ہے کہ ہاتھ مت لگاؤ خراب ہو جائے گا۔مگر بچوں کو اس کا وجہ نہیں بتایا جاتا کہ وہ چیز خراب ہوتا کیوں ہے۔
گرورجنش کہتا ہے
" بچہ بچپن (تین سال کی عمر) میں وہ کچھ سیکھ سکتاہے جو اس کے بعد کبھی نہیں سیکھ سکتا"
بچوں کو گھروں میں ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کرنے نہیں دیا جاتا۔ بلکہ بچوں کو جو کچھ کہا جاتا ہے بچے ویسے ہی کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ بچہ جب سکول جاتا ہے۔تو سکول کا ماحول گھر اور گھر سے باہر دوستوں کے معاشرہ سے بہت الگ ہوتا ہے۔ سکول میں ماسٹر صاحب ایک کمانڈر کے طرح ہوتا ہے اور صرف حکم دیتا رہتاہے۔اگر کوئی بھی بچہ ماسٹر صاحب کی حکم کی نافرمانی کرے گا تو سزا پائے گا۔ اس سزا کی وجہ سے بچہ ذہنی حوالے سے ماسٹر صاحب کا غلام بنتا ہے۔ ماسٹر صاحب جو کہتا ہے بچے وہی کرتے ہیں۔ (جو ذہنی غلامی کی ایک دوسری نشانی ہے)
(سکول کے ماحول کے بارے میں میں نے اپنی کتاب ”پرورش“ میں تفصیل سے لکھا ہے)
سکول میں بچوں کو اپنی مادری زبان میں نہیں پڑھایا جاتا بلکہ دوسرے زبان میں پڑھایا جاتا ہے(جو ذہنی غلامی کی تیسری نشانی ہے) سکول میں بچوں کو وہ چیز پڑھایا جاتا ہے جس کے لیے بچے بالکل تیا ر نہیں ہوتے۔اور دلچسپ بات یہ ہے کہ
ماسٹر صاحب کیا پڑھاتا ہے؟
کیسے پڑھاتا ہے؟
کہاں سے پڑھاتا ہے؟
ماسٹر صاحب کا حُسن سلوک بچوں سے کیسا ہے؟
اوربھی بہت سے سوالات ہیں ان سے والدین اور معاشرہ کو کوئی سروکار نہیں۔ اور نہ معاشرہ یا والدین کو ایسی چیزوں سے غرض ہے کہ ”ماسٹر صاحب ایک ماہر تعلیم اور ماہر نفسیات ہونا چاہیے“
بلکہ
Dr. Maria Orlando
کے مطابق سکول کے بچوں کے اُستادوں میں اس طرح کی نو خوبیاں ہونی چاہیے۔

1. A great teacher respects students.
2. A great teacher creates a sense of community and belonging in the classroom.
3. A great teacher is warm, accessible, enthusiastic and caring.
4. A great teacher sets high expectations for all students.
5. A great teacher has his own love of learning and inspires students with his passion for education and for the course material. 6. A great teacher is a skilled leader.
7. A great teacher can“shift-gears”and is flexible when a lesson isn’t working.
8. A great teacher collaborates with colleagues on an ongoing basis.
9. A great teacher maintains professionalism in all areas—from personal
to organizational skills and preparedness for each day

اب سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے سکولوں کے اُستادوں میں اس طرح کے خوبیا ں ہیں؟
اس سوال کا جواب دینے سے پہلے آپ کو ایک بار سکول جانا پڑھے گا
سکول کے پہلی کتاب کے اُردو قاعدہ کے بارے میں میں نے اپنے کتاب ”پرورش“ کے مضمون ”پانی چشمے سے خراب ہے“ میں یہ ذکر کیاتھا کہ اس کتاب کے صحفہ نمبر بیس کے سبق میں ایک ڈھول دکھایا گیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ کچھ اس طرح کے الفاظ درج تھے۔
”ڈھ۔ ڈھا۔ ڈھاتا۔ ڈھاٹا“
میرے سمجھ میں تو نہیں آرہا کہ یہ الفاظ کیا معنی رکھتے ہیں اورڈھول کے ساتھ ان کا کیا تعلق ہے؟۔ میرے خیال میں اس ماسٹر صاحب کو بھی ان الفاظ کے معنی نہیں آتے۔ مگر ماسٹر صاحب اسرا رکرتا ہے اور وہ بچوں سے کہتا ہے کہ بچے اس سبق کو پڑھیں، لکھیں اوریا د کریں۔ اور ماسٹرصاحب بالکل نہیں سوچتا کہ
ان الفاظ کے یا د کرنے سے بچوں کو کیا فائدہ پہنچتا ہے؟
اس کو ان باتوں سے کوئی غرض نہیں۔ کیونکہ ماسٹر صاحب خود بھی کسی کا نوکر ہے۔ اور وہ اس کوا پنا نوکری کرنا ہے۔(یہ ذہنی غلامی کی چوتھی نشانی ہے) بچے مجبوری سے ان الفاظ کو پڑھ کر لکھتے ہیں اور رٹا لگا کر یاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر بچے یاد نہیں کرتے تو ان کو سزا بھگتنا پڑے گا۔ اور بچے سزا کے خوف کی وجہ سے ان الفاظ پر رٹا لگاتے ہیں۔ اور بچوں کا وہ کھیلنے کا وقت جس وقت وہ کھیلتے اور کچھ نہ کچھ نیا کھلونا تخلیق کرتے اب رٹا لگانے میں گذر جا تا ہے۔اور اب سارا وقت ”ڈھ۔ ڈھا۔ڈھاتا۔ ڈھاٹا“ میں گذر اتے ہیں اور خواب میں بھی ان کو ماسٹر صاحب کا ڈھندا اور اس قسم کے الفاظ نظر آتے ہیں۔اور
”بچوں کی سوچنے اور تخلیق کرنے کی صلاحیت اُس دن سے ایک کوزے میں بند ہو جاتے ہیں“
جہاں تک ماسٹر صاحب کا تعلق ہے تو وہ پہلے سے ہی اسی پروسس سے گزرا ہے۔ وہ انہی کتابوں کو پڑھ کر اور رٹا لگا لگا کر ماسٹر صاحب بنا ہے۔ اور وہ اس سسٹم کے تابع ہے، اور اس سسٹم کے احکامات پہلے سے ہی کتابوں میں درج ہے۔ان کے علاوہ ماسٹر صاحب کچھ نیا نہیں پڑھا سکتا۔کیونکہ اس کو نوکری بھی کرنی ہے۔(یہ ذہنی غلامی کی پانچویں نشانی ہے)
اگر ماسٹرصاحب سسٹم کے خلاف جائے گا تو کیا وہ سکول میں رہے گا؟
ہیڈ ڈیپارٹمنٹ
ہر سکول میں ایک ہیڈ ڈیپارٹمنٹ / ہیڈماسٹر ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں سکول کا سارا نظام ہوتا ہے دانشوروں کے مطابق اُس ہیڈڈیپارٹمنٹ میں اس قسم کی صلاحیتیں ہونی چاہیے
Administrator
٭وہ ایک ہیڈمنسٹریٹر ہو
Leader
٭وہ ایک لیڈر ہو
Creative
٭ وہ ایک تخلیق کار ہو
Manager
٭ وہ ایک منیجر ہو
Jeremy Sutcliffe
کے مطابق ایک ہیڈ ڈیپارٹمنٹ میں آٹھ خوبیاں ہونی چاہیے۔


school leaders

The eight qualities of successful school leaders

Author Jeremy Sutcliffe

1. Vision

The best school leaders are visionaries with a clear sense of moral purpose. Successful leaders have "great vision – the ability to formulate and shape the future, rather than be shaped by events"

2. Courage

Successful school leaders show great determination, with the willpower and patience to see things through. They are willing to take risks and are steadfast in challenging under-performance or poor behaviour.

3. Passion

Like Codling, successful school leaders are passionate about teaching and learning and show great commitment to children.

4. Emotional intelligence

Successful school leaders are team-builders. They understand the importance of relationships, empower their staff and pupils and show great empathy.

5. Judgement

The best headteachers show great judgement, make the right calls and are wise leaders. Crucially, however, it isn't simply a matter of acting alone. It's about involving the whole school community and taking people forward together.

6. Resilience

Successful school leaders are optimistic and resilient, remain calm in a crisis and are energetic and positive at all times.

7. Persuasion

The best school leaders are confident communicators and storytellers. They are great persuaders and listeners, adept at describing 'the story of their school' to any audience. They are also great motivators.

8. Curiosity

Successful school leaders are outward-looking and curious.

اب سوال یہ ہے کیا ہمارے سکولوں کے ہیڈ ڈیپارٹمنٹس کے اندر اس طرح کی خوبیاں ہیں؟
اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ہر ایک کو ہیڈ ڈیپارٹمنٹ کی کارکردگی کو دیکھنا ہوگا۔ کیونکہ آج کل لوگ ثبو ت چاہتے ہیں اس لئے میں یہ کہتا ہوں پہلے چیک کرو پھر جواب دو۔ میرے اندازے کے مطابق ایک بڑا
No
اور ایک چھوٹا
Yes
ضرور ہے۔ اگر
Yes
بھی ہو تو کیا وہ ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ اپنے صلاحیتیں استعمال کر سکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں بھی ایک بڑا
No
اور ایک چھوٹا
Yes
ضرور شامل ہے۔ ایک ہیڈ ماسٹر جو ذہنی غلامی سے نکلنے کی کوشش کر رہاتھا اُس نے اپنا
Adminstrative Power
کو استعمال کرتے ہوئے اپنے ایک ماسٹر صاحب جو کہ
MPA
صاحب کا پرسنل سیکریٹری تھا سکول نہ آنے کی وجہ سے اُس کا تنخواہ بند کروایا۔ دوسرے دن
MPA
صاحب نے ہیڈ ماسٹر کو فون کر کے بتایاکہ اگر کل صبع تک میرے پرسنل سیکریٹری کا تنخواہ تم خود اپنے ہاتھوں سے میرے گھر نہیں پہنچایا تو تمھارا ٹرانسفر ایک ایسے جگہ کیا جائے گا جہاں تمھیں دن کو بھی تارے نظر آئیں گے۔ہیڈڈیپارٹمنٹ اگر چہ وہ ایک نمازی اور ذمہ دار شخص ہے مگر وہ ایک ملازم ہے اور اس کے اپنے بھی کچھ ذاتی مسائل ہیں۔ جن کو مدنظر رکھ کردوسرے دن صبع سویرے ہیڈ ڈیپارٹمنٹ نے اپنے ماسٹر صاحب کا تنخواہ اپنے ہاتھوں سے
MPA
صاحب کے گھر پہنچایا۔ہیڈڈیپارٹمنٹ کے
Adminstrative Power
پر پانی پھیر گیا۔اور اُس کے بعد ہیڈڈیپارٹمنٹ نے اپنے کرسی بچانے کی خاطر اپنے
Administrative Power
کو استعمال کرنے کی کوشش کبھی نہیں کی۔نہ وہ کسی کا تنخواہ بند کرسکتا ہے اور نہ کسی کا شکایت درج کر سکتا ہے جو ہو رہا ہے وہ بالکل صحیع ہو رہاہے (جو ذہنی غلامی کی ایک اور بڑی نشانی ہے جس کے اثرات سب سے زیادہ بچوں پر پڑھتے ہیں)
اب اگر کوئی ہیڈڈیپارٹمنٹ سے شکایت کرے کہ ایک ٹیچر سکول سے غیر حاضر ہے تو اس کے جواب میں ہیڈڈیپارٹمنٹ یہی کہے گا کہ ماسٹر صاحب غیر حاضر نہیں ہے وہ پانچ منٹ میں آئے گا۔میں نے بھی ایک بار اس طرح کی غلطی کی تھی میں ایک کلاس میں گیا تو طلباء نے بتایا کہ اُن کا ٹیچر ایک ہفتے سے کلاس نہیں لے رہا یہ سن کر میں سیدھا ہیڈڈیپارٹمنٹ کے آفس میں گیا اور اس کو بتایا کہ طلباء کہتے ہیں کہ ایک ہفتے سے ماسٹر صاحب کلاس نہیں لے رہا۔ تو ہیڈ ڈیپارٹمنٹ نے کہا کہ طلباء جھوٹ بول رہے ہیں ماسٹر صاحب ہر وقت کلاس لیتا ہے۔ اب بھی وہ پانچ منٹ میں اپنا کلاس لے گا۔ میں نے کہا کہ آپ ذرہ کلاس میں جا کر طلباء سے پوچھیں۔ تو جواب میں اُس نے کہا کہ میں کلاس میں نہیں جاؤں گا۔ میں دوبارہ کلاس میں جاکر طلباء کو بتا یا کہ ہیڈڈیپارٹمنٹ تمھارے کلاس میں نہیں آرہا۔ چلو ہیڈڈیپارٹمنٹ کے آفس چل کر اُسے بتاؤ کہ تمھارا کلاس نہیں ہو رہا۔میں طلباء کو ہیڈڈیپارٹمنٹ کے سامنے کھڑا کر کے اُسے بتا یا کہ اب تو طلباء سے پوچھو وہ تو آپ کے آفس کے سامنے کھڑ ے ہیں یہی میرا غلطی تھا۔سارے ماسٹر صاحبان اور ہیڈماسٹر مل کر میرے خلاف ہیڈڈیپارٹمنٹ کی طرف سے ایک نوٹیفیکشن جاری ہوا۔ جس میں لکھا تھا کہ میں ہیڈماسٹر صاحب کی
Administrative
کاموں میں مداخلت کر رہاہوں۔اگر میں نے دوبارہ ایسی حرکت کی تو اس کے برے نتائج نکلیں گے۔
اُس کے بعد میں نے بہت سے طلباء کے والد صاحباں سے شکایت کی آپ نے اپنے بچوں کوتو اس سکول میں داخل کیا ہے اب کم از کم سکول آکر اس کی حالت تو دیکھ لو۔ تو جواب ملا اگر ہم سکول آئیں گے تو وہ ماسٹر صاحبان ہمارے بچوں کے دشمن بن جائیں گے اس لئے جو کچھ ہورہا ہے صحیع ہورہا ہے۔(یہ ذہنی غلامی کی ایک اور نشانی ہے)
میں نے بہت سے سیاست دانوں سے بات کی۔جس ماسٹر صاب کا بات ہوتا تو وہ ضرور کسی نہ کسی طریقے سے کسی سیاست دان کا راشتہ دار نکلتا۔بہت سے سیاست دانوں نے تو یہ کہا کہ جب ہمارا حکومت آئے گا توان ماسٹر صاحبان سے ایک بھی نہیں رہے گا۔ جب وہ حکومت میں آئے تو ایسا لگا کہ اُنھوں نے ایسے باتیں کی ہی نہیں تھیں۔
ہیڈڈیپارٹمنٹ تو نام کا بیٹھا ہوا ہوتا ہے اُس کے
Administrative Power
برائے نام ہوتے ہیں وہ ہر وقت انتطار میں ہوتا ہے کہ آقا سے کیا حکم آتا ہے تاکہ اُس کی بجا آوری کرے۔ \
ذہنی غلامی میں تین چیزیں بڑی اہمیت اختیار کرتے ہیں۔
تعلیم
جہالت
جنونیت
کسی دانشور کا قول ہے کہ
”اگر کسی قوم کو فنا کرنا ہو تو سب سے پہلے اُس کی تعلیم پر وار کرو“
آج بلوچستان گورنمنٹ کو یہ احساس ہوا ہے۔ اور وہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ پہلی کلاس میں گیارہ لاکھ
(11,00000)
بچے سکول میں داخل ہوتے ہیں۔ مگرجمات دہم کے بورڈ کے امتحان میں صرف پچاس ہزار
(50,000)
سٹوڈنٹس (پرائیویٹ سٹودنٹس کے ساتھ) امتحان دینے کیلئے آتے ہیں۔ ا وران میں سے صرف تیس ہزار
(30,000)
سٹودنٹس پاس ہوتے ہیں (وہ بھی نقل کر کے یا رٹا لگا لگا کر) اب ایک بڑا سوال پیدا ہوتا ہے کہ دس لاکھ پچاس ہزار
(10,50000)
طلباء جو بورڈ کے امتحان تک ہی نہیں پہنچتے توکہاں جاتے ہیں؟
DR. Amos Wilson (May 19, 1983)
کہتے ہیں
For us to be sit here and be unaware of what is going on in the world means that we have to be out of touch with reality. And, one of the major instruments for putting people out of their minds is EDUCATION, it's often the basis for making people IGNORANT. Alik Shahadah
کا قول ہے۔
"If we do not stop oppression when it is a seed, it will be very hard to stop when it is a tree""
اور جو سٹوڈنٹس پاس ہوتے ہیں ان میں سے تقریباً 20% کالجوں میں داخل ہوتے ہیں اور یونیورسٹی تک پہنچتے پہنچتے ان کی تعداد تقریباً 5% رہ جاتی ہے۔ اور جب وہ ڈگریاں لیتے ہیں۔ تو بیروزگار گھومتے پھرتے ہیں۔
سٹیفن آرکو وے اپنی کتاب ”بااصول لیڈر شپ“ کے سحفہ نمبر 193 لکھتے ہیں۔
”ہم میں سے کتنے لوگ سکول میں رٹا لگاتے تھے؟
ہم میں سے کتنے لوگوں نے اچھے گریڈ حاصل کئے تھے۔۔۔۔یا گریجوایٹ ڈگریاں حاصل کی تھیں۔۔۔اور وہ بھی رٹے کی وجہ سے؟
ہم جانتے ہیں کہ ہم محض اس لئے بہترین تعلیم حاصل نہ کر سکے تھے کیونکہ ہم نے اس کی قیمت ادا نہ کی تھی۔ جب ہم ایک میدان میں چوٹ محسوس کرتے ہیں۔ ہم اس فوری چوٹ پر کام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور جب اس کے بعد ایک اوربحران سر اُٹھا تا ہے۔ تب ہم اس بحران سے نپٹنے کیلئے بھاگتے ہیں۔
اس قسم کا طرز زندگی لوگوں کو توڑپھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔اور دوسروں کے ساتھ با ہم روابط ہونے کی اہلیت میں از حد کمی واقع ہو جاتی ہے بالخصوص دباؤ۔۔۔۔اور تناؤ کی صورت حال کے تحت۔۔۔۔جو کچھ وقوع پذیر ہورہاہوتا ہے۔۔۔۔ان کی زندگی محض اسی کے گرد گھومتی رہتی ہے اور وہ حالات کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں۔“
میں تو اس لئے سکول کی تعلیم پر زور دے رہا ہوں کہ کیا یہ سکول ہمارے نسل کو تعلیم دینے کے لئے بنائے گئے ہیں؟ اگر واقعی یہ سکول تعلیمی ادارے ہیں تو وہ دس لاکھ پچاس
(10,50000)
بچے سکولوں سے کیسے غائب ہو گئے؟ کیا تعلیمی ادارے ایسے ہوتے ہیں؟ اس لئے تو کہتے ہیں کہ
نیم حکیم خطرہ جان
نیم ملّا خطرہ ایمان
نیم عالم خطرہ جہاں
ٓAlik Shahdah
کہتے ہیں
Mental slavery affects how people see their own reality. This manipulation has always been through mainstream media, religion, and education. So the opinions about reality are sourced-without any suspicion.
So the root of mental slavery is ignorance resulting in a poor grasp of information about self and the world, to function to one's full human potential.
ذہنی غلامی کی جڑیں جاہلیت سے وابستہ ہیں کیونکہ جاہل کو نہ اپنے بارے میں زیادہ انفارمیشن ہے اور نہ دُنیا کے بارے میں۔ اورنیم تعلیم یافتہ لوگ جاہلوں سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ اور ان میں جنونیت جاہلوں کے بہ نسبت زیادہ ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو ذہنی غلام بنانے کیلئے صرف ایک ہی ٹرم کافی ہے۔ ”یہ دُنیا فانی ہے“
اگر یہ دُنیا فانی ہے تو کام کیوں کرے۔ اگر کام ہی نہیں کرتے تو سوچیں کیوں۔ اگر سوچتے ہی نہیں تو تخلیق کیسے کیا جاسکتا ہے۔ ایک ہی ٹرم ایسے لوگوں کی سوچنے اور تخلیقی صلاحیت کو ختم کر دیتی ہے۔ جب انسان کی سوچنے اور تخلیقی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے اور بے حس ہوجاتا ہے۔اپنا ذہن بالکل استعمال ہی نہیں کرتا تو ذہنی غلام بنتا ہے۔اور وہ ایسے رزق کی تلاش میں ہوتا ہے جسے شارٹ کٹ طریقے سے حاصل کیا جاسکے۔ اسے جس طرح کہا جائے وہ پھر ویسا ہی کر تا ہے۔خواہ ا س کے لیے کتنی ہی قیمت ادا کرنا ہی پڑے۔

(مصنف: شیکوف بلوچ)


Mental Slavery

No comments:

Post a Comment

apna qimat janay

اپنی قیمت جانیں یہ کہانی اس بارے میں ہے کہ آپ کو اپنی قدرو قیمت جاننا کتنا ضروری ہے۔ آپ کا وقار سونے اور زیور سے زیادہ قی...