Translate and read into your own language

ذمہ داری

Our responsibility

ذمہ داری

اکثر والدین اپنے بچے کو سکول روانہ کرنے کے وقت اُس کے بدن پر ہاتھ مارکر نیک دُعا کرتے ہیں۔ کہ خدا آپ کو خوار نہ کریں۔ اس کا مقصد یہ ہوا کہ خدا آپ کو ہر وقت آزاد رکھے۔ یہاں پر ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے۔ کہ والدین اپنے بچے کیلئے اس طرح کی دُعائیں کیوں کرتے ہیں؟
اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ والدین خودساری زندگی غریبی کے دلدل میں گزارے ہوں۔مثلاََ کوئی دھاڑی کرتاہے۔ تو کوئی کھیتی باڑی کوئی محنت مزدوری کرتاہے۔ تو کوئی ڈرائیونگ، مطلب یہ کہ والدین نے خود کبھی نہیں سوچا کہ اس غریبی سے کیسے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔ وہ اپنی مشکلات کو دیکھ کراپنے بچوں کو اس طرح کے دُعائیں دیتے ہیں۔ مگر شاید وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اُن کی یہ دُعائیں بچوں کو بڑے ہوکر کسی مصیبت میں ڈھال سکتا ہے۔ میں اکثر بچوں کو دیکھتا ہوں۔ جو کام چور ہوتے ہیں۔ اور اس کام چوری کی وجہ سے وہ نہ کچھ کرتے ہیں اور نہ کوئی بات برداشت کرتے ہیں َ بچوں کو کہنے کے مطابق وہ اپنے گھروں میں کوئی کام نہیں کرتے۔وہ ہر وقت آزاد ہوتے ہیں۔جب کوئی بچہ ایک کام شروع کرتاہے۔ تووالدین اُسے کہتے ہیں۔ بچہ یہ کام مت کرو کیونکہ تمھیں تکلیف پہنچے گا۔ بچہ جب یہ بات سنتا ہے کہ کام کرنے سے بچے کو تکلیف پہنچے گا۔ تو وہ بچہ کام کرنے سے کتراتا رہتا ہے۔ بعد میں وہ کام چور بن جاتاہے۔ بجائے اس کے کہ والدین اپنے بچے کو کام کرنے کے عادی بنائیں۔ اوربچوں کو ذمہ داری سونپی جائے کہ اُسے یہ کام کرناہے۔۔ کیونکہ سب سے اہم چیز وہ ذمہ داری ہی ہے۔ اگر کوئی ذمہ داری اُٹھا نہیں سکتا وہ دُنیا میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ دُنیا میں اکثر اُن لوگوں پر زیادہ بھروسہ کیا جاتاہے جو ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ مثال کے طورپر اگر ایک کتے کو کسی گھر میں پالا جاتاہے۔ اور اُس کتے پر گھر کی رکھوالی یعنی حفاظت کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے۔ تو وہ کتا ساری رات جاگتا رہتا ہے اور اُس کے گھر والے یعنی مالک آرام سے سو رہاہوتاہے۔ چور اُس گھرمیں ڈاکہ ڈھالنے سے ڈرتے ہیں۔ دوسرے لوگ شام کو اس گھرمیں داخل ہونے سے کتراتے ہیں۔ دوسرے کتے اُس کے ایریامیں نہیں آتے۔اور نہ ہی بلیاں اس گھرمیں گھسنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کتے کا مالک ہر وقت اپنے کتے سے خوش ہو کر وقت پر اُسے کھانا اور پانی دیتاہے۔ دوسرے لوگ بھی اس کتے کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اور اُس کو نظر بد سے دیکھنے کی جرات نہیں کرتے۔ ہر ایک اُس کی تعریف کرتاہے۔ کہ پلان آدمی کا کتا کتنا اچھاہے۔ سارے گھر کو سنبھلا ہواہے۔ اس کے بہ نسبت ایک کتا آزاد ہوتا ہے۔ اور اس کے اوپر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔وہ کبھی ایک گھر میں گھس کر کھانا تلاش کرتاہے۔ کبھی دوسرے گھرمیں، کبھی ایک گلی میں تو کبھی دوسرے گلی میں ہر آدمی اُسے دیکھ کر ایک پتھر مارتا ہے۔ کتا کتنا پیارا ہی کیوں نہ ہو۔ مگر کسی کیلئے کچھ فرق نہیں پڑتا۔بچے بھی اُسے مارتے ہیں اور بڑے بھی۔ اپنی آزادی کی وجہ سے کتے کوکبھی بھی آرام نصیب نہیں ہوتا۔ آخر میں کتا بچوں کو دیکھ کر بھاگتا رہتا ہے۔
اگر ہم کتے کے مثال پر غور کریں تو اس سے یہی نتیجہ نکالا جاتا ہے۔
”کہ بچوں کو زیادہ لاڈ پیار دینے کی سہولت اُسے بڑے ہوکر مصیبت میں ڈال سکتا ہے۔“
اگر ہم چاہتے ہیں۔ کہ بچہ بڑا ہوکر ایک کامیاب انسان بن جائے،تو اُسے ذمہ داری نبھانا سکھائیں۔کیونکہ جب تک بچہ ذمہ داری نبھانا نہیں سیکھ پاتا اُس وقت تک بچہ لاپروائی کاشکار ہوتاہے۔ اس لیے تو کہتے ہیں۔ کہ ”بچہ گرنا جانتا ہے۔ تھکنا نہیں جانتا“/
آزاد ہونے پہ خوار نہ ہونے کہ مقصد یہ نہیں کہ آدمی کچھ نہ کرے۔ بلکہ آزادی کا مقصد ہے۔ ذمہ داری نبھانا۔ اور اُس کو ایمانداری سے سر انجام دینا۔ اگر کوئی آدمی ذمہ داری اُٹھائے اور اُسے درست طریقے سے نبھائے تو وہ ایک عظیم انسان سمجھا جاتاہے۔
اکرم اور زبیر ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے۔ اکرم کے والدین صبح سویرے اپنے بچے کو سکول روانہ کرنے سے پہلے اپنے بچے کے تمام تر کتابیں اور کاپیاں چیک کیا کرتے تھے۔ او ر اُس سے یہی کہتے تھے۔ کہ بچہ سکول جا دل لگا کر پڑھ ایک بڑاآدمی بن جا۔ اپنی استادوں کا احترام کر سکول میں جو کام آپ کو دیا جائیگا۔ ذمہ داری سے بنھا۔ اکرم ہر صبح وقت پر سکول جاتا۔ کلا س میں اُستاد کی باتوں کو غور سے سنتا۔ سکول سے فارغ ہونے کے بعد جو بھی کام سکول میں دیا جاتا۔ وہ ذمہ داری سے نبھاتا۔ سکول سے فارغ ہونے کے بعد جب وہ گھر آتا۔ کھانا کھانے کے بعد وہ اپنے سکول کاکام کرتا۔ اور ساتھ ساتھ گھر کے کاموں میں اپنے والدین کا ہاتھ بٹھاتا جس کی وجہ سے اس نے گھر میں کھانا بنانا کپڑے استری کرنا، گھرکو صاف رکھنا مہمانوں کی مہزبانی کرنا اور بہت سے چیزیں سیکھ لیے۔ عصر کے وقت اُسے دو گھنٹہ کیلئے ملتا وہ فٹبال گراؤنڈ جا کر فٹبال کرتا تاکہ وہ تھوڑا ریلیکس ہوجائے۔ شام کو کھانا کھانے کے بعد وہ پھر سے پڑھنے میں مشغول ہوجاتا۔ جب اکرم سکول پاس کرکے یونیورسٹی گیا۔ دوسرے شہر میں داخلہ لیا۔ تو اُسے ہاسٹل مین رہنا پڑا۔ اکرم نے گھرمیں کھانا بنانا سیکھا تھا۔ اُس لیے اُس نے کینٹین کے کھاناکھانے سے پرہیز کیا۔ بلکہ وہ اپنے لیے ہر وقت خود کھانا بناتاتھا۔ اور ساتھ اپنے کپٹرے دھوتا اور خود استری کرتا۔ دوسرے شہر جانے سے اُس پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ اس کا صحت اچھا تھا۔ اُس نے پڑھائی جاری رکھی۔ اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوکر ڈائریکٹر بن گیا۔ اور اب مستقبل میں اُس کیلئے کامیابی کے راستے کھلے ہیں ۔ کیونکہ اُس نے اپنے کردار سے لوگوں کے دلوں میں جگہ کر لی۔
زبیر کے والدین اپنے بچے کو سکول روانہ کرنے سے پہلے اُسکے بدن پر ہاتھ مارکر کہتے کہ خدا آپ کو خوار نہ کرے۔ زبیرسکول جاتا۔سکول کاکام نہیں کرتا۔ اُستادوں کی باتوں پر دھیان نہیں دیتا۔ سکول سے چھٹی کرنیکے بعد وہ گھر میں کوئی کام نہیں کرتا۔ او راُس کے والدین اپنے بچے کو کوئی کام کرنے نہیں دیتے کہ وہ بچہ ہے۔ اُسے تکلیف ہوگا۔ جس کی وجہ سے زبیر کاہل اورسست بنتا رہا۔ آخر کار وہ کام چور بن گیا۔ وہ ہر وقت اپنے کوسوٹ بوٹ کرکے بازار میں ایسا گھوما کرتاتھا۔ کہ سارے بازار اُسکی ہے۔ اُس کے دوست بھی زبیر سے کہتے کہ پڑھنے سے کیاملتاہے۔ امتحان میں ہم تمھاری مدد کریں گے۔ تم پاس ہوجاؤگے۔ وہ صبح سکول جاکر حاضری لگانے کے بعد سکول سے بھاگ جاتا۔ امتحانوں کے وقت اُس کے دوستوں نے ہیلپر کا کردار ادا کر کے اس کو پاس کرواہا۔ سکول پاس کرنے بعد جب وہ اپنے کو تھوڑا بڑا محسوس کرنے لگا کہ اُس کے پاس سکول پاس سرٹیفیکٹ تو موجود ہے۔ مگر اُسے کچھ آتا بھی نہیں۔ اُسے یونیورسٹی میں داخلہ نہیں ملا۔ تو اُس نے پولی ٹیکنک میں داخلہ لیا۔ کچھ دن اُس نے کینٹین میں کھانا کھایا۔ اور کپٹروں کو استری کرنے کیلئے دھوبی کو دیا کرتاتھا۔ دو مہینے کے بعد اُس کی طبیعت خراب ہوگئی۔ وہ پڑھائی چھوڑ کر واپس اپنے شہر گیا۔ والدین کی لاپروائی کی وجہ سے زبیر آج تک ”اپنے شہر کے گلیوں میں آزادی سے گھوم رہاہے۔ مگر پریشان اور زندگی سے بیزار۔
”جو آدمی ذمہ داری نبھانا سیکھے گے قسمت کے دروازے اُس کیلئے خود بخود کھل جائیں گے۔“



(مصنف: شیکوف بلوچ)

our responsibility

The man who will learn to take responsibility The doors of fate will automatically open for him
Written by Shaikof

Rebirth of

No comments:

Post a Comment

apna qimat janay

اپنی قیمت جانیں یہ کہانی اس بارے میں ہے کہ آپ کو اپنی قدرو قیمت جاننا کتنا ضروری ہے۔ آپ کا وقار سونے اور زیور سے زیادہ قی...